کشمیریوں کے حق ِ خودارادیت کی منصفانہ جدوجہد

315

بھارت کے غیر قانونی اور یک طرفہ اقدامات کے خلاف پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج یومِ استحصالِ کشمیر منایا جا رہا ہے۔ مقبوضہ وادی میں حریت کانفرنس سمیت تمام کشمیری جماعتوں کی جانب سے پوسٹرز چسپاں کیے گئے ہیں جن میں 2019ء کے غیر قانونی اقدامات کو واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کشمیری بھارتی قبضے کو ہرگز تسلیم نہیں کریں گے۔ بھارت کو واضح پیغام دیتے آ رہے ہیں کہ وہ اپنی زمین پر جبری اور غیر قانونی تسلط کو کسی بھی صورت تسلیم نہیں کریں گے۔ کشمیر میڈیا سروس کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی حکومت غیر کشمیری ہندوؤں کو صرف 22 سو روپے ماہانہ یعنی محض چند ڈالر کی معمولی قسط پر فلیٹ دے رہی ہے، کشمیری املاک کو غیر کشمیری ہندوؤں کو دینے کے لیے بھارتی انتظامیہ نے اگست 2019ء میں کی گئی قانون سازی کے تحت بنائے گئے جموں اور کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کی قیادت میں تقریباً 200 فلیٹس کی چابیاں بھارتی شہریوں کے حوالے کر دی ہیں جبکہ باقی 136 فلیٹ رواں سال اکتوبر تک بھارتی شہریوں کے حوالے کر دیے جائیں گے۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ محبوبہ مفتی نے قابض انتظامیہ کے اِس اقدام کی سخت مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وادی میں غیر کشمیری ہندوؤں کو بسانا وادی میں ہندوؤں کی آبادکاری کا منصوبہ ہے، یہ آبادی کا تناسب اپنے حق میں کرنے کے لیے مودی حکومت کا ہتھکنڈہ ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق بھارتی فوج اور انتظامیہ انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں میں ملوث ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں انتقاماً لوٹ مار، قتل عام اور خواتین کے ساتھ بداخلاقی کرتی ہے۔ ایشیاء واچ کی رپورٹ کے مطابق صرف ایک ہفتے میں 44 ماورائے عدالت قتل اور 15 بداخلاقی کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق 1989ء سے لے کر 2020ء تک 11 ہزار سے زائد کشمیری خواتین بداخلاقی کا شکار ہو چکی ہیں لیکن کسی قصوروار کو سزا نہیں ملی۔ وہاں کشمیریوں کی حالت دگرگوں ہے، کاشت کاری سے لے کر کاروبار تک سب کچھ تنزلی کا شکار ہے، کشمیری مسلمانوں کی املاک کے نقصانات کا تخمینہ اربوں روپے تک جا پہنچا ہے۔ ہر سال کی طرح اِس سال بھی اہل ِ کشمیر بین الاقوامی برادری سے بھارت پر 5 اگست کے اقدامات کو واپس لینے کے لیے زور ڈالنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں احتجاجی ریلیاں نکالی جا رہی ہیں، کشمیریوں کی بھرپور حمایت کے لیے شاہراہوں اور عمارتوں پر بینرز لگائے گئے ہیں، کئی ممالک کے سربراہان مملکت، وزرائے اعظم اور وزرائے خارجہ سمیت اہم شخصیات نے کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے خصوصی پیغامات بھی جاری کیے جن میں کشمیریوں کے حق ِ خودارادیت کی منصفانہ جدوجہد کو سراہتے ہوئے اْن کی قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ بھارت کے غیر قانونی اقدامات اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور چوتھے جنیوا کنونشن سمیت عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لیے آئین تبدیل کر دیا تھا۔ 5 اگست 2019ء کو آرٹیکل 370 اور 35 اے کو منسوخ کر کے کشمیریوں کی خصوصی حیثیت ختم کر دی گئی تھی، ریاستی اسمبلی اور حکومت ختم کر کے گورنر راج لگا دیا گیا تھا اور اِس کے بعد وہ کون سا ظلم ہے جو کشمیریوں پر نہ ڈھایا گیا ہو، کرفیو لگا کر کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کر دیا گیا، انٹرنیٹ اور فون سروس بند کر کے دنیا سے رابطہ کاٹ دیا گیا، حالات کم و بیش آج بھی ویسے ہی ہیں۔ بھارت نے جی 20 کی صدارتی حیثیت کا فائدہ اْٹھاتے ہوئے فورم کا سیاحت سے متعلق اجلاس مقبوضہ وادی میں کرایا۔ سری نگر کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کرنے کے بعد اجلاس کرا کے دنیا کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ کشمیر میں حالات معمول پر ہیں لیکن چین اور چند دوسرے ممالک نے شرکت سے معذرت کر لی اور بھارت کی کوشش ناکام ہو گئی۔ چین نے موقف اختیار کیا کہ وہ متنازع کشمیر کے کسی علاقے میں بلائے گئے اجلاس میں شرکت نہیں کر سکتا۔ اقوام متحدہ، یورپی ممالک اور امریکا کے علاوہ بھی بعض ممالک نے مودی حکومت کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز تو اٹھائی ہے لیکن یہ ناکافی ہے۔

گزشتہ کئی سال سے بھارت نے کشمیری قیادت کو گرفتار یا نظر بند کر رکھا ہے، کسی کو رہا کیا جاتا ہے تو چند دن بعد دوبارہ گرفتار کر لیا جاتا ہے، مودی حکومت کا خیال تھا کہ ریاست کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے خلاف احتجاج کرنے والے کچھ عرصے میں تھک جائیں گے اور حالات معمول پرآ جائیں گے جس کے بعد ریاست میں نئے انتخابی حلقے بنا کر انتخابات کرا دیے جائیں گے، اِس مقصد کے لیے بھارتی حکومت نے بھارت نواز کشمیری جماعتوں کے لیڈروں کی ایک کانفرنس بلائی اور اْنہیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ اگر وہ کشمیر میں نئے انتخابات میں شرکت پر رضا مند ہو جائیں تو مناسب وقت پر ریاستی حیثیت بحال کر دی جائے گی لیکن مودی کی خواہش پوری نہیں ہو سکی جدوجہد ِ آزادی نے بھارت کو تمام تر ظلم و جبر، تشدد و گرفتاریوں اور ریاستی دہشت گردی کے باوجود اْسے اْس کے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہونے دیا، کشمیریوں کے حوصلے پست ہوئے ہیں اور نہ ہی اْن کی جدوجہد رُکی ہے۔ بھارت کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ مقبوضہ وادی کا بچہ بچہ، بزرگ، خواتین اور ہر جوان آزادی کا خواہش مند ہے، اْن کا عزم توڑا نہیں جا سکتا، وہ آزادی کے لیے ہر طرح کی قربانی دیتے آئے ہیں اور آئندہ بھی دیتے رہیں گے۔