اسماعیل ہنیہ کی شہادت ،ایران میں فوجی وخفیہ اداروں کے افسرا ن گرفتار ،امریکی اخبار۔حماس کی تردید،حوثی باغیوں کا بھی بدلہ لینے کا اعلان

340

تہران (صباح نیوز)ایران حکومت کی جانب سے اسماعیل ہنیہ پر حملے کی تحقیقات بہت تیزی سے جاری ہیں۔امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ایران کے ملٹری ذرائع کا بتانا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کے قتل کی تحقیقات کے لیے انٹیلی جنس اور ملٹری افسران کے علاوہ اسماعیل ہنیہ کے سکونتی گیسٹ ہاؤس کے ملازمین کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔ دوسری جانب اسماعیل ھنیہ کا قتل ، حماس نمائندہ ڈاکٹرخالدالقدومی نے امریکی اخبار کے دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے عمارت کو جھٹکا لگا اس کی شدت کی وجہ سے میں نے سوچا کہ گرج چمک یا زلزلہ آیا ،ہم چوتھی منزل پر گئے جہاں اسماعیل ھنیہ تھے ،پتا چلا کہ جس جگہ وہ تھے اس کی دیوار اور چھت گر کر تباہ ہو گئی تھی شہید اسماعیل ھنیہ کا جسد خاکی دیکھ کر واضح ہوتا ہے کہ ان کی خواب گاہ فضا سے آنے والے میزائل کا نشانہ بنی ،ادھرایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کا اسماعیل ہنیہ کی شہادت کا بدلہ لینے کا اعلان کردیا ہے‘ایرانی پاسداران انقلاب نے الزام عاید کیا ہے کہ اسماعیل ہنیہ پر حملے میں اسرائیل کو امریکہ کی مدد حاصل تھی‘ حملے میں اسرائیل نے کم فاصلے پر مار کرنے والا پروجیکٹائل استعمال کیا ۔امریکی اخبار کے مطابق اسماعیل ہنیہ پر تہران میں قاتلانہ حملہ ایران کی سیکورٹی کے لیے بہت بڑا سوالیہ نشان ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایران کی پاسداران انقلاب کی خصوصی انٹیلی جنس ٹیم اس معاملے کی شدت سے تحقیقات کر رہی ہے۔یاد رہے کہ اسماعیل ہنیہ کو31 جولائی کو تہران میں اس وقت شہید کیا گیا جب وہ ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی تقریب حلف میں شرکت کے لیے ایران کے دارالحکومت میں موجود تھے۔ واضح رہے کہ غیر ملکی میڈیا نے پہلے یہ اطلاع دی کہ اسماعیل ہنیہ کو میزائل حملے میں شہید کیا گیا اور ان کی موجودگی کی اطلاع اسرائیل نے وٹس ایپ پر اسپائی ویئر کے ذریعے حاصل کی۔ پھر خبر آئی کہ اسماعیل ہنیہ کے کمرے میں پہلے سے بم نصب تھا اور پھر کہا گیا کہ اسرائیل نے ایرانی ایجنٹوں کے ذریعے اسماعیل ہنیہ کے کمرے میں بم نصب کروائے اور ایران کے پاس ان ایجنٹوں کی تصاویر بھی موجود ہیںادھراسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے تہران میں نمائندے ڈاکٹر خالد القدومی نے امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے دعوے کے یہ قتل ان کی رہائش گاہ میں نصب بم کے ذریعے کیا گیا کی تردید کردی۔ڈاکٹر خالد القدومی نے کہا کہ شہید اسماعیل ھنیہ منگل کی صبح تحریک کے رہنمائوں کے ایک وفد کی سربراہی میں ایران پہنچے جس میں عرب اور اسلامی تعلقات کے دفتر کے سربراہ خلیل الحیا اور پولیٹیکل بیورو کے رہنما محمد نصر اور زاھر جبارین بھی شامل تھے۔خالد قدومی کے مطابق اسماعیل ہنیہ کے ہمراہ وفد پزشکیان کی طرف سے عشائیہ کی دعوت کے جواب میں ایرانی صدارتی ہیڈ کوارٹرز گئے اور پھر تہران کے شمال میں اپنی رہائش گاہ چلے گئے۔ یہ رہائش گاہ خفیہ نہیں تھی اور بہت سے لوگوں کو اس جگہ کا علم تھا۔ خالد القدومی نے بتایا کہ ہم رات گئے رہائش گاہ پر پہنچے تو شہید رہنما اسماعیل ھنیہ نے شام کی نماز ادا کی، پھر ہم نے صدر کی حلف برداری کی تقریب اور اس کے اچھے ماحول کے بارے میں بات کی۔ اس کے بعد شہید ھنیہ سونے کے لئے اپنے کمرے میں چلے گئے۔ خالد القدومی نے بتایا کہ اسماعیل ھنیہ کے وسیم ابو شعبان، جس کے پیچھے میں نے اس رات عشا کی نماز پڑھی، وہ شہید اسماعیل ھنیہ کی کمرے کے باہر پہرہ دے رہے تھے اور قرآن پڑھ رہے تھے۔ حماس کے نمائندے نے کہا کہ جب وہ شہید ہوئے تو قرآن ان کے ہاتھ میں تھا جس پر ان کا پاک خون نمایاں دکھائی دے رہا تھا۔اسماعیل ھنیہ کی زندگی کے آخری لمحات کے بارے میں بات کرتے ہوئے حماس کے رہنما خالد القدومی نے مزید بتایا کہ ٹھیک ایک بج کر37 منٹ پر عمارت میں لرزہ محسوس ہوا۔ اس لیے میں جس جگہ موجود تھا، وہاں سے نکل گیا۔ میں نے دھواں دیکھا۔ اور اس کے بعد کہ ہمیں معلوم ہوا کہ الحاج ابو العبد (اسماعیل ھنیہ کی کنیت)شہید ہو چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہاں ایک چمک تھی۔ خالد القدومی نے مزید کہا کہ عمارت کو جو جھٹکا لگا اس کی شدت کی وجہ سے میں نے سوچا کہ گرج چمک یا زلزلہ آیا ہے۔ میں نے کھڑکی کھولی تو بارش یا گرج چمک دکھائی نہیں دی اور موسم گرم تھا۔ ہم چوتھی منزل پر گئے۔ جہاں اسماعیل ھنیہ تھے۔ پتہ چلا کہ جس جگہ وہ تھے اس کی دیوار اور چھت گر کر تباہ ہو گئی تھی۔ڈاکٹر القدومی نے مزید کہا کہ حملے کے بعد کی جگہ کی ظاہری شکل اور اس کے ساتھ کیا ہوا اور شہید اسماعیل ھنیہ کا جسد خاکی دیکھ کر واضح ہوتا ہے کہ ان کی خواب گاہ فضا سے آنے والے میزائل کا نشانہ بنی۔ یہ ایک میزائل یا کوئی گولہ بھی ہوسکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ مزید تفصیلات میں نہیں جانا چاہتے کیونکہ اسلامی جمہوریہ ایران میں ہمارے بھائیوں کا ایک ماہر وفد فنی تحقیقات کر رہا ہے اور نتائج کا اعلان بعد میں کرے گا۔ایران میں حماس کے نمائندے نے نیو یارک ٹائمز کی کہانی اور اسرائیلی پریس میں حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ کے بستر کے نیچے ان کی رہائش گاہ پر بم نصب کرنے کے ساتھ ساتھ اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈینیئل ہگاری کے اس دعوے کی بھی تردید کر دی کہ اس رات حماس کو نشانہ بنانے کے لئے اسرائیلی فضائی حملہ نہیں کیا گیا تھا۔مزید برآںایران کے نگران وزیرخارجہ علی باقری نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے ٹیلیفون پر رابطے میں واضح کردیا ہے کہ اسرائیل سے انتقام لینے کے حق سے ایران کسی صورت دستبردارنہیں ہوگا۔ایرانی میڈیا کے مطابق انہوں نے کہا کہ حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کو شہید کرکے ایران کی قومی سلامتی پر حملہ کیا گیا اورعلاقائی استحکام کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ایرانی وزیرخارجہ نے کہا کہ اسرائیل نے علاقائی اور عالمی امن و استحکام کو خطرے سے دو چار کیا ہے۔علی باقری کا کہنا تھا کہ اس صورت میں ایران حق دفاع سے کسی صورت پیچھے نہیں ہٹے گا، مجرم صیہونیوں کو متناسب سزا دی جائے گی۔ایرانی وزیرخارجہ نے زور دیا کہ امن و استحکام کیلئے عالمی برادری اسرائیل کیخلاف کھڑی ہو اورغزہ میں جرائم روکنے کیلئیاسرائیل پر دباو ڈالے۔یمن میں ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے رہنما عبدالمالک الحوثی نے تہران میں حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے جواب میں اسرائیل کو فوجی ردِ عمل کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ ادھر اسرائیل نے بھی انتباہ کیا ہے کہ کسی بھی حارحیت کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی ۔برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق یمن کے حوثی باغیوں کے ترجمان یحیی ساری نے ایک بیان میں کہا تھا کہ فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے اسرائیل کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رہے گا، تل ابیب ہمارا اہم ہدف ہے جو ہمارے ہتھیاروں کی رینج میں آتا ہے۔ ادھر اسرائیل کے وزیرِ دفاع یوو گیلنٹ کا کہنا تھا کہ اگر حوثیوں نے دوبارہ حملہ کرنے کی جرات کی تو ان کے خلاف مزید کارروائیاں بھی ہوسکتی ہیں۔علاوہ ازیںایران کے پاسداران انقلاب نے ہفتے کو کہا ہے کہ اسرائیل نے کم فاصلے پر مار کرنے والا پروجیکٹائل استعمال کرتے ہوئے حماس کے سیاسی امور کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو قتل کیا۔ انڈیپنڈنٹ اردو کے مطابق پاسداران انقلاب کے بیان میں کہا گیا کہ یہ دہشت گردانہ کارروائی تقریبا سات کلوگرام وزنی وار ہیڈ کے ساتھ مختصر فاصلے تک مار کرنے والے پروجیکٹائل کو رہائشی علاقے کے باہر سے فائر کر کے کی گئی جس کے نتیجے میں زوردار دھماکا ہوا۔بیان کے مطابق اس حملے میں اسرائیل کو امریکا کی مدد حاصل تھی۔
تردید