جنگلے چوری ، کیمروں کی ری لوکیشن ، سابقہ تنخواہیںاور بند آنکھوں والے افسران

239

پشاور کے لالہ ایوب ہاکی اسٹیڈیم میں میڈیا لاونج کے اوپر بنائے گئے شائقین کے بیٹھنے کی جگہ سے جنگلے غائب ہونے کا سلسلہ شروع ہوگیا جس کی اطلاع بمعہ تصاویر کی انہی صفحات کے ذریعے صوبائی اسپورٹس ڈائریکٹریٹ کی انتظامیہ کو کردی گئی جس پر خواب خرگوش میں ڈوبی ہوئی انتظامیہ بیدار تو ہوگئی لیکن ان کی بیداری بھی کام نہ آئی اور کیمروں کی انسٹالیشن کے بعد بھی اب انتظامیہ کو پتہ چلا ہے کہ کیمرے جہاں پر لگائے گئے ہیں وہاں سے چوری کے ان واقعات کا پتہ لگانا مشکل ہے.اسی وجہ سے اسپورٹس ڈائریکٹریٹ کی انتظامیہ نے کم و بیش تین ماہ قبل لگائے جانیوالے کیمروں کی دوبارہ ری لوکیشن کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے بعد کیمرے مختلف جگہوں پر لگائے جائیں گے.یہ صوبائی اسپورٹس ڈائریکٹریٹ کی انتظامیہ کا فیصلہ ہے جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انتظامیہ کرپشن و چوری کے خاتمے کیلئے کتنی کوشاں ہے کیونکہ قبل ازیں بھی انتظامیہ کے کہنے پر کیمرے لگائے گئے تھے اب ان کیمروں کی دوبارہی ری لوکیشن اور مزید کیمروں پر پر کتنے اخراجات آئیں گے یہ الگ سوال ہے۔

کچھ عرصہ قبل تک یہی کہا جاتارہا کہ اسپورٹس ڈائریکٹریٹ میں چوری کی واقعات کی روک تھام سمیت دیگر معاملات کیلئے کیمرے لگائے جائیں ، کیمرے لگنے کے بعد چوری سمیت کھیلوں کے مختلف گرائونڈز میں کھیلوں کا سامان توڑنے کے واقعات ہوئے تو یہ کہا گیا کہ اسٹوریج کی کمی ہے اس لئے ہم زیادہ دنوں تک ڈیٹا جمع نہیں کرسکتے جس کیلئے الگ پیمنٹ ہوئی اور ایک مرتبہ پھر کیمروں کی انسٹالیشن کا عمل شروع کیا گیا ، جبکہ اب کی بار ایک مہینے کی اسٹوریج کی بات کی گئی لیکن ساتھ میں یہ کہا گیا کہ کیمروں کی غلط انسٹالیشن کی وجہ سے چور کا پکڑنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔حالانکہ اصل حقیقت یہی ہے کہ جنگلوں کی اس چوری میں اندر کے لوگ ہی ملوث ہیں جنہیں پتہ ہے کہ کس طریقے سے یہ سامان نکالنا ہے اسی طرح کس وقت نکالنا ہے لیکن اگر انتظامیہ اس پر ہاتھ بھی ڈالتی ہے تو پھر انہیں پتہ ہے کہ اس میں آہستہ آہستہ سب کے نام سامنے آجائیں گے اس لئے اس معاملے پرخاموشی بہتر ہے۔

خیر یہ تو ایک خبر ہے لیکن اصل خبر یہ ہے کہ ہاکی کے ایک کھلاڑی جو کہ پشاورہاکی کی طرف سے کھیلتے ہیں انہوں نے ہماری اٹھائے جانیوالے چوری کی خبر کو یہ کہہ کر مسترد کرنے کی کوشش کی کہ “آپ فارغ ہو” اس لئے یہ خبریں چلاتے ہوں ، یعنی ان کی نظر میں چوری کی کوئی اہمیت نہیں ، حالانکہ وہ خود اسی گرائونڈز میں کھیلتے ہیں اور انہیں اس گرائونڈز سے اتنی محبت ہے کہ انہیں اس میں جنگلوں کی چوری پر افسوس کرنے کے بجائے اس کی خبر لانے والے پر اعتراض ہے۔ایک اور صاحب نے بھی اس پر اعتراض کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ کھلاڑیوں کے مسائل پر توجہ دی جائے ، سوئمنگ سے وابستہ یہی صاحب ہر وقت شکایت کرتے ہیں کہ عادل خان سوئمنگ پول کا پانی گندہ ہے لیکن وہ خود اسی گندے پانی میں سوئمنگ کرتے ہیں اس وقت انہیں گندگی نظر نہیں آتی۔اسے منافقت کہیے ، یا کچھ اور لیکن ہر کوئی اپنی ڈفلی بجا رہا ہے انہیں اس سے کوئی غرض نہیںکہ عوامی ٹیکسوں کا پیسہ جہاں کرپشن کرکے غیر معیاری چیزیں بنا کر ضائع کیا جاتا ہے وہیں پر اسپورٹس کے شعبے میں اور خصوصا خیبر پختونخواہ اسپورٹس ڈائریکٹریٹ میں چوری کی اس طرح کی وارداتیں کرکے پیٹ بھرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں حالانکہ جن کے پیٹ اللہ تعالی نے نہیں بھرے ان کی پیٹ دنیا کی کوئی طاقت پر نہیں کرسکتی۔

طاقت سے یاد آیا چند روز قبل سابق ڈی جی اسپورٹس کے دور میں برطرف کیے جانیوالے دیگر اہلکاروں میں سے کچھ اہلکار گزشتہ روز تعینات ہوگئے یہ بیشتر ڈیلی ویجز ہیں جنہوں نے اس دوران ڈیوٹی بھی انجام دی لیکن انہیںگذشتہ کئی ماہ سے “اوبہ شی ” کے نام پر لائن میں رکھا گیا ، بتیس ہزار روپے تنخواہ پر رکھے جانیوالے ان ملازمین کی سابقہ تنخواہوں کا کیا ہوگا اس بار ے میں خاموشی ہے البتہ انہیں کہا جارہا ہے کہ جولائی سے ان کی تنخواہیں شروع ہو جائینگی اور بقایا جات پر انہیں خاموش رہنے کی ہدایت کی گئی ہیں ، یہاں پر سوال یہ بنتا ہے کہ آخر ڈیلی ویج ملازمین کی آنیوالی تنخواہیں کہاں پر گئیں اور انہیں لے جانیوالے کونسے طاقتور لوگ ہیں جن کے بارے میں اسپورٹس ڈائریکٹریٹ بھی خاموش ہیں اور ملازمین کو ان کی خون پسینے کی کمائی بھی نہیںدی جارہی ۔ لیکن اس تمام عمل میں یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ” پیا وہی جسے پیا من چاہے ” یعنی جسے انتظامیہ چاہے وہی سب کچھ ہے۔باقی خیرخیریت ہے۔کیونکہ پوچھنے والا کوئی نہیں۔

پوچھنے کا معاملہ صرف یہی نہیں بلکہ کوئی یہ بھی نہیں پوچھ رہا کہ اسپورٹس ڈائریکٹریٹ سمیت ضم اضلاع کے کوچز کس طرح پاکستان اسپورٹس بورڈ کے ایک پرائیویٹ جیم میں تعینات ہیں ، جنہیں تنخواہیں اسپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبرپختونخواہ دیتی ہیں لیکن ان کا بیشتر دورانیہ ڈیوٹی کا پی ایس بی پشاور کے پرائیویٹ جیم میں گزرتا ہے جہاں پر آنیوالے کھلاڑیوں سے ادائیگی کرنے پر تربیت پر توجہ دی جاتی ہیں سوال یہ ہے کہ سرکاری خزانے سے تنخواہیں لینے والے ملازمین کس طرح دوران ڈیوٹی ایک پرائیویٹ جیم میں ڈیوٹی کرتے ہیںان کی ڈیوٹیوں کا سلسلہ کچھ عرصہ سے جاری ہے لیکن نہ تواسپورٹس ڈائریکٹریٹ کی انتظامیہ کو پتہ چل رہا ہے اور نہ ہی کوئی ان سے یہ پوچھ رہا ہے کہ کونسے قانون کے تحت کام ہورہا ہے یا پھر ان سے کوئی یہ پوچھے کہ یہ لوگ اپنے اسپورٹس ڈائریکٹریٹ کے جیم میں کیوں کام نہیں کرتے .اور اب تک انہوں نے کتنے کھلاڑی اپنے شعبے میں پیدا کیے ہیں ۔مشیر کھیل خیبر پختونخواہ کو تو کھیلوں کے بارے میں اتنا پتہ نہیں ، ڈی جی اسپورٹس بھی صرف کرکٹ کی حدتک محدودہیں کیونکہ کرکٹررہ چکے ہیں لیکن انتظامی امور سمیت خوشامد اور خوشامد کے ماہر بہت سارے افسران کو اس بارے میں علم ہے وہ کیوں اس معاملے پر خاموش ہیں کہیں انہیں اس بات کا خطرہ تو نہیں کہ اگرانہوں نے اعتراض کردیا تو پھر یہ سوال بھی اٹھایا جائیگا کہ افسرا ن کے گھروں میں کام کرنے والے ملازمین سمیت کلاس فور سے براہ کوچز بننے والے ملازمین بھی سامنے لائے جائیں تو پھر وہ بھی پھنس جائیں گے۔