مکڑی کا جالا

397

پہلا حصہ
’’یہودی وجود ایک بڑی طاقت ہے‘‘ یہ مفروضہ، یہ بیانیہ اور جھوٹ اسی مغربی میڈیا نے تخلیق کیا ہے جو غزہ جنگ کے ابتدائی مہینوں میں ہمارے سامنے ثابت کررہا تھا کہ غزہ کے بپٹسٹ اسپتال پر میزائل حملہ اور پانچ سو مسلمانوں کی شہادت کا ذمے دار حماس ہے۔ یہ مفروضہ ان مسلم حکمرانوں نے قائم کیا ہے جو اپنے بالوں میں کنگھی کرنے سے پہلے امریکا سے اجازت طلب کرتے ہیں۔ یہ سب مل کر ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ گیدڑ بہادری اور دلیری کی علامت ہیں جب کہ شیر ایک کمزور، نحیف، لاغر اور بزدل وجود ہے جسے لڑنا آتا ہے اور نہ شکار کرنا۔ اللہ کی آخری کتاب جنہیں سب سے بزدل قوم قرار دیتی ہے اور جن کے بارے میں کہتی ہے کہ وہ ہزار برس جینا چاہتے ہیں یہ ہم پر ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ عظیم طاقت ہیں لیکن جو لاالہ الااللہ کا کلمہ پڑھتے ہیں اور شہادت کی خواہش اور تمنا جنہیں ہر دم بے قرار اور بے چین رکھتی ہے وہ ایک حقیر قوت ہیں۔
یہ ہمیں اس قوم کی عظمت کے قصے سنا رہے ہیں جو دس مہینے گزرگئے لیکن ایک ملیشیا کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہ کرسکی۔ جو غزہ کی اوپن جیل کے، ملبے تلے دبے لوگوں سے اس قدر خوفزدہ رہی کہ غزہ جنگ کے تین ہفتے تک زمینی حملے کی جرأت نہیں کرسکے۔ جو پتھر اٹھائے بچوں کے مقابل آنے سے کتراتی ہے اور سیکڑوں بچوں کو اپنی جیلوں میں قید کیے ہوئے ہے۔ اس کی فوج کی حقیقت یہ ہے کہ یہ مسلم خواتین سے لڑنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ اس کے نام نہاد شہرت یافتہ آئرن ڈوم کی اوقات یہ ہے کہ کچن میں بنائے گئے راکٹ اور میزائلوں کا دفاع نہیں کرسکا۔ اسرائیل کی اپنی کوئی طاقت نہیں ہے یہ صرف بیرونی امداد پر اچھل سکتا ہے۔ یہ اپنے بدترین انجام سے قریب تر ہے۔
یہ یہودی وجود جسے اسرائیل کہتے ہیں ’’ایسی بڑی طاقت‘‘ ہے کہ اس کا کل رقبہ بیس ہزار کلو میٹر ہے۔ پاکستان کا آٹھ لاکھ مربع کلومیٹر ہے۔ اس سے چالیس گنا بڑا۔ اس کی کم ازکم چوڑائی دس میل بھی نہیں ہے۔ ایک گدھے پر بیٹھ کر چلیں تو آدھے پون گھنٹے میں آپ یہودی وجود کے پار گزر جا ئیں گے۔ اندازہ کریں F-16 کو اس یہودی وجود کو پار کرنے میں کتنے منٹ لگیں گے۔ کم سے کم رفتار ہو تب بھی ایک منٹ سے بھی کم محض چند سیکنڈز۔ اس یہودی وجود کی حد سے حد چوڑائی پچاس کلو میٹر ہے۔کتنا وقت لگے گا اس کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک جانے میں؟ اسرائیل کے پاس تزویراتی گہرائی یا اسٹرٹیجک ڈیپتھ نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ پاکستان ایک ہزار کلو میٹر سے زیادہ چوڑا ہے۔ اس ایک ہزار کلو میٹر چوڑائی پر بھی ہمارے ماہرین پریشان رہتے ہیں کہ پاکستان کی اسٹرٹیجک ڈیپتھ کم ہے۔ یا للعجب! یہودی وجود سارا پچاس کلو میٹر چوڑائی کا ملک ہے اور یہ عظیم طاقت ہے؟؟
اسرائیل کی 70 فی صد آبادی، 80 فی صد صنعتی انفرا اسٹرکچر اور سارا اسٹرٹیجک انفرا اسٹرکچر ایک چھوٹی سی کوسٹل لائن کے اندر ہے جو اردن کے مغربی کنارے (جو کہ انہوں نے چھینا ہوا ہے) اور سمندر کے درمیان میں ہے۔ اس انفرا اسٹرکچر میں ہی سب کچھ موجود ہے۔ اس میں بن گوریان ائر پورٹ بھی ہے، ٹرانس اسرائیلی ہائی وے بھی ہے، نیشنل واٹر کیرئیر بھی ہے، ہائی وولٹیج الیکٹرک پاور لائنز بھی ہیں سب اس کے اندر ہیں۔ اردن سے یہ سارا سیٹ اپ بارہ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ اسلام آباد کے جی الیون اور پارلیمنٹ تک کا فاصلہ۔ جب کہ اردن کا مغربی کنارہ اونچائی پر ہے۔ وہاں سے اسرائیل کا یہ سارا اہم ترین علاقہ اردن کی فوج کے براہ راست نشانے پر ہے۔ حملہ کرنے
والے کو ہر زاویہ سے اسرائیل پر برتری حاصل ہوگی۔ اپنی توسیع پسندی کا اسرائیل یہ جواز پیش کرتا ہے کہ اس کی مختصر سرحدیں دفاع کرنے کے قابل نہیں ہیں اس لیے ہم زمینوں پر قبضہ کررہے ہیں۔ یہ اسرائیل کا وہ رقبہ ہے جس کا ذکر ہی نہیں کیا جاتا سوائے ہمارے حکمرانوں کی اس تکرار کے کہ ہم اسرائیل کے مقابل نہیں آسکتے کیونکہ وہ بہت طاقتور ہے۔ مصر، ترکی، اردن اور پاکستان سے تقابل چھوڑیں اگر اس وجود کا حزب اللہ سے تقابل کریں جس کے پاس چالیس ہزار تربیت یافتہ افواج ہیں، ڈھائی لاکھ راکٹ ہیں، ڈرونز ہیں، اینٹی بلیسٹک میزائل ہیں۔ صرف لبنان میں جہاں حزب اللہ کا اسٹیشن ہے وہاں سے حیفہ اور تل ابیب تیس سے ساٹھ کلو میٹر دور ہے۔ جب کہ حزب اللہ کے پاس چارسو کلو میٹر دور تک فائر کرنے والے میزائل ہیں جن پر پانچ سو کلو گرام سے لے کر ایک ٹن تک وار ہیڈ لوڈ کیا جاسکتا ہے۔ وہاں سے سو میزائل فائر کیے جائیں۔ اگر اسرائیل کا آئرن ڈوم آدھے میزائل روک سکا کیونکہ اس کی استعداد پچپن سے ساٹھ فی صد تک ہے تب بھی آدھے میزائل اسرائیل کے اندر جا گریں گے۔ اسرائیل کی کمر ٹوٹ کررہ جائے گی۔ اسرائیل پر حملہ کرنے کے لیے حزب اللہ کو اپنے میزائلوں کی رینج کم کرنا پڑتی ہے کیو نکہ اسرائیل بہت چھوٹا ہے۔
غزہ جنگ کے ابتدائی دنوں میں جب ایک اسرائیلی وزیر نے ارادہ ظا ہر کیا کہ ہم اچانک حزب اللہ پر حملہ کرتے ہیں۔ فوج نے اس سے انکار کردیا کہ یہ ہماری اوقات نہیں ہے۔ یہ صرف نہتے لوگوں کو مارنے کے لیے بہادر ہیں۔ یہودی وجود کی صلاحیت یہ ہے کہ دس برس پہلے حزب اللہ کا ڈرون اسرائیل کی نیو کلیئر تنصیبات ڈیمونہ کے اوپر سے گزرگیا یہ کھوج بھی نہ لگا سکے۔ آج حزب اللہ کی استعداد کیا ہوگی؟ ہمارے حکمران ہمیں اس طاقت سے ڈرا رہے ہیں کہ غزہ جنگ کے آغاز پر حماس کے جوان معمولی سی تعداد میں اس کی سرحد میں داخل ہوئے تو سیکڑوں فوجیوں اور چار جرنیلوں کو یرغمال بنا کر لے آئے جب کہ ان کے شہری بھی فوجی تربیت یافتہ ہوتے ہیں۔ یہودی وجود کی ساری فوج ڈیڑھ لاکھ بزدل افواج پر مشتمل ہے۔ غزہ کی چھوٹی سی پٹی پر زمینی حملے کرنے کی جرأت انہیں تب ہوتی ہے جب یہ پوری پٹی کو ملبے کا ڈھیر بنادیتے ہیں۔ اس کے بغیر یہ زمینی حملہ نہیں کرسکتے اس کے باوجود کہ یہ تین لاکھ ریزرو فوج طلب کرچکے تھے۔ جس کی وجہ سے اسرائیل میں کاروبار متاثر ہورہے ہیں۔ پندرہ سے سترہ فی صد لیبر فورس ختم ہوگئی ہے۔ پانچ سو ہائی ٹیک کمپنیوں کے ستر فی صدآپریشن التوا کا شکار ہوگئے ہیں کیونکہ ان کے ملازم ریزرو فوج میں ہیں۔ یہودی وجود کی ساری آبادی ساڑھے نو ملین ہے۔ ایک کروڑ کے لگ بھگ۔ لاہور سے بھی کم۔ کراچی کی نصف آبادی سے بھی کم۔ جس میں بیس فی صد عرب ہیں تیس فی صد حریری یہودی ہیں جو سائنس پڑھتے ہیں اور نہ فوج کا حصہ بنتے ہیں۔ اسرائیل درحقیقت پچاس لاکھ آبادی کا ملک ہے۔ ان میں سے بھی بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو دوہری شہریت رکھتے ہیں اور عالم یہ تھا کہ جب حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا تو یہ اسرائیل سے بھاگ رہے تھے۔ ائر پورٹس پر فلائٹس نہیں مل رہی تھیں۔ ہوٹلوں میں کمرے خالی پڑے تھے۔ حماس ایک راکٹ فائر کردے تو پچیس لاکھ لوگوں کو ایس ایم ایس چلا جاتا ہے اور وہ پناہ لینے کے لیے بنکروں کی طرف دوڑتے ہیں۔ یہ ان کی اوقات ہے اور جن مسلمانوں سے یہ مقابلہ کررہے ہیں وہ وہ لوگ ہیں جو موت کی تمنا میں جیتے ہیں۔ یہ کس طرح مسلم افواج کا مقابلہ کرسکتے ہیں؟
(جاری ہے)