عوامی دھرنے کے خلاف شر انگیز پروپیگنڈا

338

راولپنڈی میں شدید بارشوں اور سیلابی صورت حال کے باوجود جماعت اسلامی کا عوامی دھرنا تادم تحریر جاری ہے۔ جماعت اسلامی نے اس عوامی مطالبات پر مشتمل ایک محضرنامہ حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے سامنے پیش کردیا ہے اور حافظ نعیم الرحمن نے اعلان کیا ہے کہ وہ ان مطالبات سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ ان مطالبات میں کوئی بھی سیاسی مطالبہ نہیں ہے۔ سب عوام کو درپیش اقتصادی مشکلات ہیں جنہیں مطالبات کی شکل دی گئی ہے۔ حکومت مذاکرات کو طول دینا چاہتی ہے۔ چناں چہ اس نے تجویز پیش کی ہے کہ مطالبات ٹیکنیکل کمیٹی کے سامنے پیش کیے جائیں گے جو ان مطالبات کی تیکنیکی دشواریوں پر غور کرے گی اور ان کے حل کا راستہ نکالے گی۔ یہ ایک طویل پراسیس ہے جسے قائد تحریک نے رد کردیا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر اس معاملے کو طول دینے کی کوشش کی گئی تو دھرنے کا رُخ اسلام آباد کی طرف ہوسکتا ہے۔ واضح رہے کہ حافظ نعیم الرحمن نے 26 جولائی کو اسلام آباد کے ڈی چوک میں دھرنا دینے کا اعلان کیا تھا اور چاروں صوبوں سے عوام کو ڈی چوک اسلام آباد پہنچنے کی ہدایت کی تھی لیکن حکومت نے راتوں رات کنٹینرز لگا کر اسلام آباد کو سیل کردیا اور دھرنے کے شرکا کی ڈی چوک پہنچنے کی کوشش ناکام بنادی۔ جماعت اسلامی کے قائدین نے اس معاملے پر اسلام آباد کی انتظامیہ سے بات چیت کی۔ بالآخر تصادم سے بچنے کے لیے طے پایا کہ فی الحال دھرنا راولپنڈی کے لیاقت باغ میں دیا جائے گا اور وہیں سے عوامی مطالبات منوائے جائیں گے۔ تاہم حافظ نعیم الرحمن نے واضح کردیا ہے کہ دھرنا عوام کے مطالبات منظور ہونے تک جاری رہے گا۔ تادم تحریر صورت حال یہ ہے کہ جماعت اسلامی اور حکومت کی مذاکراتی ٹیموں میں بات چیت کے دوران ڈیڈ لاک پیدا ہوگیا ہے اور حافظ نعیم الرحمن نے لیاقت باغ میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے وارننگ دی ہے کہ اگر حکمرانوں نے حالات کو بگاڑنے کی کوشش کی تو دھرنا پورے ملک میں پھیل جائے گا، شہر شہر دھرنا دیا جائے گا اور ’’حکومت گرائو‘‘ تحریک شروع ہوجائے گی۔
عوامی دھرنے کا یہ ہے وہ منظرنامہ جس پر پوری قوم کی نگاہیں لگی ہوئی ہیں۔ اس دھرنے کا کسی سیاسی مہم جوئی سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ سراسر عوام کے مطالبات ہیں جنہیں منظور کیے بغیر عوام کی زندگی آسان نہیں ہوسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی سے نظریاتی اختلافات رکھنے والی اپوزیشن جماعتیں بھی میزبان خاموشی اسی دھرنے کی تائید کررہی ہیں۔ اس وقت ملک میں سب سے بڑی اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف ہے اس کے بانی عمران خان نے برملا دھرنے کی حمایت کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ جماعت اسلامی نے عوام کو بجلی کے ظالمانہ بلوں اور بے تحاشا ٹیکسوں سے نجات دلانے کے لیے بالکل درست قدم اُٹھایا ہے۔ عمران خان نے اپنے کارکنوں اور سپورٹرز کو ہدایت کی ہے کہ وہ جماعت اسلامی کے دھرنے میں شرکت کریں اور اسے اپنی اخلاقی حمایت کا یقین دلائیں۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے بھی اپنے قائد کے بیان کی تائید کی ہے لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا سیل عوامی دھرنے کے خلاف غلط فہمی پھیلا رہا ہے ایک صاحب نے لکھا ہے کہ پی ٹی آئی کی سیاسی جدوجہد کو سبوتاژ کرنے کے لیے پہلے تحریک لبیک کو میدان میں اُتارا گیا تھا، اس کے کارکن فیض آباد (راولپنڈی) میں کئی دن تک دھرنا دیے بیٹھے رہے، جب اس سے بات نہ بنی تو انہیں رخصت کردیا گیا اور جماعت اسلامی کو لانچ کیا گیا ہے جس کے منہ میں عوامی مسائل کا لولی پاپ ہے۔ وہ اس لولی پاپ کو چوس رہی ہے اور عوام کو بھڑکا رہی ہے۔ ایک صاحب نے اپنے خبث باطن کا مظاہرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایک حافظ (نعیم الرحمن) دوسرے حافظ (جنرل عاصم منیر) کو بچانے کے لیے میدان میں نکل آیا ہے۔ ایک مشہور اینکر پرسن نے عوامی دھرنے کو جماعت اسلامی کی دو نمبری قرار دے دیا ہے اور تاثر یہ دیا ہے کہ جماعت اسلامی اسٹیبلشمنٹ سے ملی ہوئی ہے۔
جماعت اسلامی کو اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم قرار دینا جماعت اسلامی کے مخالفین کا پرانا حربہ ہے۔ یہ کام وہ لوگ کرتے ہیں جو خود اسٹیبلشمنٹ کے بغل بچے ہوتے ہیں۔ جماعت اسلامی کا اسٹیبلشمنٹ سے کیا واسطہ؟ اس کی تو ہمیشہ فوجی قیادت سے ٹھنی رہی ہے۔ جنرل ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سب سے پہلے جماعت اسلامی کو ٹارگٹ کیا تھا۔ اس نے جماعت اسلامی پر پابندی لگا کر اپنی دانست میں آخری وار کیا لیکن اس زمانے میں عدالتیں زندہ تھیں اور جماعت اسلامی انصاف حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ جماعت اسلامی کو جنرل ضیا الحق کی بی ٹیم کہا گیا لیکن واقعات گواہ ہیں کہ اسی جرنیل نے جماعت اسلامی کے مقابلے میں جرائم پیشہ گروہ ایم کیو ایم کی سرپرستی کرکے جماعت کی پیٹھ میں چھرا گونپا۔ ایم کیو ایم آج بھی اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم ہے۔ ہم مزید تفصیل میں جانے سے گریز کرتے ہوئے یہ یاد دلانا چاہتے ہیں کہ حافظ نعیم الرحمن نے امارت کا حلف اُٹھانے کے بعد سب سے پہلے اسٹیبلشمنٹ کو مخاطب کیا تھا اور فوجی قیادت سے کہا تھا کہ بہت ہوگئی اب آپ کو آئین کی حدود میں رہنا ہوگا آپ آئین کے مطابق اپنا کرم کریں اور سیاستدانوں کو کرنے دیں۔
حافظ صاحب نے الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کی کھل کر مخالفت کی ہے۔ وہ پی ٹی آئی کے اس موقف کے حامی ہیں کہ فارم 47 کے ذریعے جس عوامی مینڈیٹ پر قبضہ کیا گیا ہے اسے واگزار ہونا چاہیے۔ حافظ نعیم الرحمن نے کبھی پی ٹی آئی کی سیاسی جدوجہد کی مخالفت نہیں کی بلکہ اس کے ساتھ چلنے کا اعلان کیا ہے پھر ان کے برپا کردہ عوامی دھرنے کی مخالفت کیوں؟ یہ دھرنا عوام کے سلگتے ہوئے مسائل کو حل کرنے کے لیے برپا کیا گیا ہے جن کی وجہ سے لوگ خودکشی پر مجبور ہورہے ہیں۔ کیا عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے وہ خودکشیاں کرتے رہیں اور ہم اپنی سیاست چمکاتے رہیں، افتخار عارف نے سچ کہا ہے
اب اور کتنی دیر یہ دہشت یہ ڈر یہ خوف
گرد و غبار عہدِ ستم اور کتنی دیر!
شام آ رہی ہے ڈوبتا سورج بتائے گا
تم اور کتنی دیر ہو، ہم اور کتنی دیر