پوری دنیا کے مسلمانوں کے گرد حلقہ ٔ زنجیر ِ ظلم و ستم تنگ سے تنگ تر ہوتا جا رہا ہے اور نہایت صدمے اور دکھ کی بات یہ ہے کہ پورا عالم ِ اسلام اس بات کو سنجیدگی سے لینے کے لیے تیار ہی نہیں۔ یہ ایک عالم گیر سچائی ہے کہ ہر کام کرنے سے پہلے، خواہ اس کا تعلق کھیل سے ہو یا کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے، پہلے بدن کو گرمایا جاتا ہے، پھر دشمن کی طاقت، اس کے جوش، اس کے جذبے اور جنون کو پرکھا جاتا ہے تب کہیں جاکر میدان میں کودا جاتا ہے۔ عالم اسلام اس بات کو بھولا نہیں ہوگا کہ کافی عرصے قبل اہل طاغوت نے آپؐ کی توہین میں کچھ خاکے شائع کیے تھے تو پورا عالم اسلام ہی نہیں، عالم انسانیت بھی اس بری طرح چراغ پا ہوا تھا کہ لاکھوں کروڑوں انسان اپنے اپنے گھروں اور دفتروں سے نکل کر سڑکوں اور گلیوں میں نکل آئے تھے۔ یہ ایک طویل مدت کے بعد ’’ٹسٹ میزائل‘‘ تھا جو چھوڑ کر یہ اندازہ لگایا گیا تھا دنیا اور خاص طور سے مسلمانانِ عالم کا کیا ردِ عمل سامنے آتا ہے۔ دنیا بھر سے شدید ردِعمل کے سامنے آنے کا نتیجہ یہ نکلا کافی عرصے تک کوئی اور ایسی طاغوتی حرکت دیکھنے میں نہیں آئی جو مسلمانوں کے دل کو دکھا سکتی تھی۔ عالم طاغوت نے زخم دینے کے بعد مرہم کے طور پر کئی مذمتی بیانات داغے تاکہ ماحول کو ٹھنڈا کیا جا سکے لیکن اس کے بعد وقفے وقفے سے متعدد ایسے واقعات سامنے آتے رہے جن میں خاکوں کا شائع ہونا یہاں تک کہ قرآن کو سر ِ عام نذرِ آتش کر دینا جیسے نہایت ایذا پہنچانے والے اقدامات شامل تھے۔ ہر عمل کے بعد مسلمانوں کا ردِعمل تو سامنے آتا گیا لیکن ہر مرتبہ اس کی شدت اور ایسے مذموم عمل کے خلاف جوش اور جذبے میں کمی در کمی ہوتی گئی۔ دشمن اپنے تجربے پر تجربے اور اپنے مقاصد پر مقاصد حاصل کرتا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خواہ برما کے مسلمانوں کے خلاف ظالمانہ کارروائیاں ہوتی رہیں، خواہ عراق کو برباد کیا جاتا رہا، خواہ افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجائی جاتی رہی اور خواہ کشمیر کا سودا ہوتا رہا، عالم اسلام کے ماتھے پر ناگواری کی ایک شکن تک ابھر کر نہیں دی۔
کئی ماہ سے فلسطین میں فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ ہر وہ ظلم جو کبھی فرعون و ہامان یا نمرود و شداد تک نے انسانوں پر نہیں ڈھایا ہوگا، وہ اسرائیل فلسطینیوں پر توڑتا چلا آ رہا ہے لیکن عالم اسلام اس پر اس طرح خاموش ہے جیسے فلسطینیوں پر آہن و فولاد کی بارش نہیں بلکہ پھولوں کی پتیاں نچھاور کی جا رہی ہوں۔ ہر روز سیکڑوں مردوں، عورتوں اور بچوں کی چیختی دھاڑتی صداؤں پر بھی کوئی مسلمانوں کا ملک کان دھرتا دکھائی ہی نہیں دیا یہاں تک کہ ایک دردناک خبر بھی سننے کو مل گئی کہ وہ مردِ مجاہد بھی شہید کر دیا گیا جو فلسطینیوں کے لیے عزم و ہمت کی ایک چٹان بنا ہوا تھا۔ ’’اسماعیل ہنیہ‘‘ کی شہادت ایک عظیم المیہ اپنی جگہ لیکن جو بات اس سے بھی بڑھ کر دکھ کی ہے وہ یہ ہے کہ وہ کسی کے بلانے پر ایک ایسے ملک گیا تھا جو اس وقت پورے عالم اسلام میں فلسطینیوں کے سر پر ہاتھ رکھنے اور آواز اٹھانے والا ملک شمار کیا جاتا تھا۔
اگر اس سانحے پر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو طاغوت کی سازشوں کی گہرائیوں کو سمجھنا کوئی مشکل نہیں۔ جب سے سلطنت ِ اسلامیہ چھوٹے چھوٹے خانوں میں تقسیم ہوئی ہے اس وقت سے لیکر آج تک طاغوت نے یہ طے کر لیا کر لیا ہے کہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو ایک دوسرے سے اتنا کاٹ کر رکھو کہ وہ اپنی سوچنے سمجھنے کی ہر صلاحیت کو کھو بیٹھیں۔ ایک دوسرے کے دشمن بن کر رہے اور اپنے اندر کے جذبہ جہاد کو اپنے ہی بھائیوں پر آزماتے رہیں۔ ایران عراق جنگ، سعودیہ کے خلاف عراق کی کارروائیاں، فلسطینیوں کو فلسطینیوں سے لڑوانا، اردن، شام، مصر میں آنے بہانے خلفشار برپا کرتے رہنا، افغانستان میں اس چالاکی کے ساتھ جنگ کرنا کہ افغانستان پاکستان کو اور پاکستان افغانستان کو اپنا جانی دشمن گردان نے لگے۔ المختصر یہ کہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو ایک دوسرے کے لیے اس بری طرح خطرہ بنادیا جائے کہ انہیں اپنے اصل دشمنوں کے خلاف سوچنے کا موقع ہی نہ مل سکے۔ مسلمانوں کا کوئی ملک اگر مسلمانوں کے قریب آنے لگے تو ان کے درمیان اختلافات کی اتنی اونچی اور مضبوط فصیل کھڑی کر دینا کہ وہ ایک دوسرے کی شکل تک دیکھنا گوارہ نہ کریں۔ ترکی ملائیشیا اور کئی ممالک پاکستان کو ایک الگ معاشی زون بنانے کی خواہش مند نظر آئے تو پاکستان کو ڈرا دھمکا کر اس سے دور رکھا گیا اور اب فلسطین اور ایران کے درمیان نفرتوں کا ایک ایسا بے کنار سمندر حائل کر دیا گیا ہے کہ جس کو عبور کرنا کسی کے بھی بس میں نظر نہیں آتا۔
پاکستان بلا شبہ مسلمانوں کا ایک ایسا ملک ہے جو کسی بھی برے وقت میں کسی کے بھی کام آ سکتا ہے لیکن اس بات کو پاکستان کے حکمران سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ دنیا اس بات کو خوب اچھی طرح جانتی ہے کہ پاکستان کبھی دنیا کی بڑی طاقتوں کے بر خلاف قدم نہیں اٹھا سکتا۔ اس حقیقت کے باوجود بھی طاقتور ممالک پاکستان کو مضبوط و مستحکم ہوتا ہوا نہیں دیکھ سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ طاغوتی طاقتیں پورے پاکستان کو مسلسل خلفشار میں مبتلا رکھے ہوئے ہیں۔ بلوچستان ہو، کے پی کے ہو، شمالی علاقاجات ہوں، شہروں کی صورتِ حال ہو، سیاسی چپقلش ہوں یا فوجی آپریشنز، ایک طویل عرصے سے پاکستان مسلسل اسی قسم کی صورتِ حال کا شکار ہے۔ پاکستان سمیت جب تک پوری دنیا کے مسلمان اپنی اپنی اندرونی و بیرونی تلخیاں اور اختلافات کو بھلا کر ایک پرچم تلے جمع نہیں ہوں گے اسماعیل ہنیہ جیسے نہ جانے کتنے سالار شہادتیں پاتے رہیں گے اور دنیائے اسلام خلفشار اور تنزلی کا شکار رہے گی۔