کرۂ ارض پر بہترین مسلمانوں میں سے ایک حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ شہید کردیے گئے۔ وہ ایران کے دورے پر آئے ہوئے تھے جہاں تیس جولائی کی شب دو بجے حملے کا براہ راست نشانہ بنایا گیا۔ حملے میں ان کے ساتھی وسیم ابو شعبان بھی شہید ہو گئے۔ شہادت کے چند ہی گھنٹوں بعد الجزیرہ ٹی وی پر شہید کے فرزند نے اس اندوہناک خبر کو سن کر فوری ردِعمل دیتے ہوئے پُرسکون لہجے میں جواب دیا کہ ’’ہم اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہیں اور یہ کہ حق کے لیے لڑنے والے عظیم لیڈر اکثر شہید ہی ہوتے ہیں۔ ہمیں اپنے باپ پر فخر ہے‘‘۔ شہید کی بہو نے کہا ’’آنکھیں نم، دل مغموم لیکن ہم اللہ کی تقدیر پر راضی ہیں‘‘۔ شہادت سے کچھ عرصے پہلے اسماعیل ہنیہ نے اپنی شہادت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا: ’’ہم مسئلہ فلسطین کے حوالے سے اپنے اعتماد اور ذمے داری کا وزن محسوس کرتے ہیں اور یہ ایک ایسی ذمے داری ہے جس کی ایک بڑی قیمت ہے اور ہم یہ قیمت ہر وقت ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ میری شہادت فلسطین کی خاطر، خدائے بزرگ وبرتر کی خاطر اور اس قوم کے وقار کے لیے ہوگی۔ ان شاء اللہ‘‘۔
اسماعیل عبدالسلام ہنیہ، جن کو عبدالعبد کے نام سے بھی جانا جاتا تھا، ایک فلسطینی پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب عرب اسرائیل جنگ کے بعد اسرائیل نے غزہ کا محاصرہ کررکھا تھا۔ فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے اونروا کے زیر انتظام اسکولوں میں انہوں نے تعلیم حاصل کی۔ غزہ شہر کی اسلامی یونیورسٹی میں عربی ادب کی تعلیم حاصل کی اور دوران طالب علمی اسلامی طلبہ تنظیم میں شامل ہوئے جو بعد میں حماس کی صورت میں سامنے آئی۔ وہ حماس کے سیاسی سربراہ تھے۔ وہ 2006 میں وزیر اعظم بھی رہے۔ 1989 میں انہیں اسرائیل نے تین سال کے لیے قید کر دیا تھا جس کے بعد انہیں دیگر حماس رہنماؤں کے ساتھ لبنان سرحد پر بے دخل کر دیا گیا۔ اسماعیل ہنیہ تقریباً ایک سال تک جلا وطن رہے۔ تاہم وہ ایک سال بعد غزہ لوٹے اور 1997 میں انہیں شیخ احمد یاسین کے دفتر کا سربراہ متعین کر دیا گیا۔
16 فروری 2006ء میں حماس نے انہیں فلسطین کے وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیا اور اسی ماہ کی 20 تاریخ کو انہوں نے یہ عہدہ سنبھال لیا۔ 2006 میں اسرائیلی فوج کے ہیلی کاپٹروں نے وزیر اعظم اسماعیل ہنیہ کے دفاتر کو نشانہ بھی بنایا۔ اس حملے میں تین محافظ زخمی ہوئے لیکن اسماعیل ہنیہ اس وقت وہاں موجود نہیں تھے۔ ایک سال بعد فلسطین کے صدر محمود عباس نے انہیں برطرف کر دیا جب القسام بریگیڈ نے غزہ کی پٹی میں سیکورٹی معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ اسماعیل ہنیہ نے اس عمل کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت فلسطینی عوام کے لیے کام کرتی رہے گی۔ بعد میں اسماعیل ہنیہ نے فتح کے ساتھ مفاہمت پر زور دیا۔
چھے مئی 2017 کو اسماعیل ہنیہ کو حماس کی شوریٰ نے سیاسی بیورو کا سربراہ منتخب کیا۔ اسماعیل ہنیہ 2019 میں غزہ چھوڑ کر ترکی اور قطر منتقل ہوگئے تھے، جہاں انہوں نے حماس کے سیاسی رہنما اور ترجمان کے طور پر اپنی پہچان بنائی۔ انہوں نے ایران اور شام کی قیادت کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط کیا اور 2020 میں ایران کے اسلامی انقلابی گارڈز کے کمانڈر قاسم سلیمانی کی عراق میں امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد ان کے جنازے میں شرکت کی تھی۔ حماس ایران کی امداد حاصل کرنے والے کئی اسلامی گروہوں میں شامل تھا۔
30 جولائی 2024 کو 62 سالہ اسماعیل ہنیہ جب ایک غدارانہ صہیونی حملے میں شہید ہوئے وہ تہران میں ایران کے نئے صدر مسعود پیزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے وہاں موجود تھے۔ اسرائیل کی جانب سے ماضی میں بھی حماس کے رہنماؤں کو قتل کیا جاتا رہا ہے جس نے فلسطینی مزاحمت کو کمزور کرنے کے بجائے مزید مضبوط کیا ہے۔ اسرائیل نے تاحال اسماعیل ہنیہ کی شہادت کی ذمے داری قبول نہیں کی۔ یکم اگست 2024 کو نیتن یاہو نے ایک خطاب میں ایران کی پراکسیز کو منہ توڑ ردعمل دینے کا اظہار کیا، ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اسرائیل پر حملہ کرنے والوں کو نہیں چھوڑیں گے لیکن اسمائیل ہنیہ کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔
اسرائیل نے ایران کی سرزمین پر اس کے ایک قریبی اتحادی کو نشانہ بناکر ثابت کردیا ہے کہ کس طرح خود کو ’’مزاحمت کا مرکز‘‘ باور کرنے والے ایران کا دارالحکومت اس کا آسان ہدف ہے اور کس طرح میزائل سے درست نشانہ لگایا جاتا ہے۔ ایران نے اسماعیل ہنیہ کہ شہادت پر انتقام کی علامت سرخ پرچم لہرادیا ہے۔ جسے ایران اپنی پراکسی باور کراتا ہے سوال یہ ہے کہ جب حماس نے اسرائیل پر بڑا حملہ کیا تھا تب ایران نے کیا کیا؟ غزہ میں اب تک لاکھوں مسلمان شہید ہوچکے ہیں ایران نے کیا کیا؟ جب شام میں ایران کے اپنے جرنیل کو مارا گیا تب ایران نے اسرائیل کو کیا نقصان پہنچایا۔ کیا اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر بھی ایران کی طرف سے ایک طے شدہ انتقامی کارروائی ہوگی اور بس۔
اس حملے کے بعد اسرائیل کے لیے دنیا مزید پریشان کن جگہ بن جائے گی۔ یہ ڈوب جانے کا مقام ہے کہ دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کو آنکھیں دکھانے والا اسرائیل، جدید ترین سائنسی ہتھیاروں سے جنگ کرنے کے باوجود دس ماہ گزر گئے ایک چھوٹی سی ملیشیا کو قابو نہیں کرسکا۔
مسلمان بھیڑیوں کے درمیان زندہ رہنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ تاتاری پونے دوسو برس (1206-1368) مسلمانوں کے جان ومال سے کھیلتے رہے۔ آخر میں کون فتح یاب ہوا۔ فلسطینی تمام مسلمانوں کی طرف سے جہاد کا فرض پورا کررہے ہیں۔ وہ مسلم تہذیب کی بقا کی جنگ لڑرہے ہیں۔ اسرائیل اپنی حقیقت میں مکڑی کے جالے کے سوا کچھ نہیں جس میں اسماعیل ہنیہ آج شکا ر ہوگئے ہیں لیکن اس کے نتیجے میں یہ جنگ ختم ہوگی اور نہ رکے گی۔ حماس کے رہنما سامی ابو زہری کا کہنا ہے: ہم بیت المقدس کو آزاد کرانے کے لیے کھلی جنگ لڑرہے ہیں اور مختلف قیمتیں ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ حماس ایک ایسا ادارہ اور نظریہ ہے جو اس کے کسی ایک رہنما کے قتل سے متاثر نہیں ہوگا۔۔۔ ان شاء اللہ تعالیٰ