پاکستان کی معیشت میں امکانی استعداد (Potential) یقینا موجود ہے، لیکن اس وقت عملاً معیشت ڈول رہی ہے، حکومت کا یہ دعویٰ درست ہے: ’’ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچالیا گیا ہے‘‘، لیکن اس سے یہ نہ سمجھا جائے: ’’کہیں زیر زمین غیر معمولی مقدار میں پٹرول نکل آیا ہے یا سونے کی کان دریافت ہوگئی ہے یا اچانک برآمدات میں ریکارڈ اضافہ ہوگیا ہے‘‘، ایسا ہرگز نہیں ہے، معیشت کی رفتار اُسی بے ڈھنگے انداز سے چل رہی ہے۔ ڈیفالٹ سے بچانے کا سبب آئی ایم ایف کے وہ معاہدے ہیں، جس کی سزا قوم بھگت رہی ہے یا چین، سعودی عرب اور امارات کا واجب الادا قرضوں کی ادائیگی کو حکومت ِ پاکستان کی درخواست پر بار بار مؤخر کرنا ہے، اس سے بھی قرضوں کا بوجھ کم نہیں ہوتا، بلکہ بڑھتا چلاجاتا ہے۔
رواں بجٹ میں حکومت کی متوقع سالانہ آمدن اور اخراجات کے درمیان تقریباً آٹھ ہزار پانچ سو ارب روپے کا فرق ہے، جبکہ برس ہا برس کا معمول یہ ہے: عام طور پر حقیقی آمدن ہدف سے کم رہتی ہے اور حقیقی اخراجات ہدف سے بڑھ جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہر سالانہ قومی بجٹ کے ساتھ ساتھ گزشتہ مالی سال کے اضافی اخراجات کے لیے قومی اسمبلی سے سالانہ بجٹ کے علاوہ ضمنی بجٹ بھی منظور کرایا جاتا ہے۔ بجٹ کی دستاویزات میں یہ نہیں دکھایا جاتا کہ متوقع آمد اور خرچ کے درمیان جو تفاوت ہے، وہ کہاں سے پورا کیا جائے گا، ظاہر ہے: اس کے لیے مزید داخلی اور بیرونی قرضے لیے جاتے ہیں اور یوں قوم پر قرض کا بوجھ بڑھتا چلا جاتا ہے، مستقبل ِ قریب یا بعید میں اس سے چھٹکارے کی کوئی عملی صورت نظر نہیں آتی۔ اس کا ایک ہی راستہ ہے: یاتوحکومت دفاع سمیت اپنے سارے اخراجات کو اپنی آمدنی تک محدود رکھے، سارے اللّے تللّے ختم کردے یا اپنی آمدنی غیر معمولی طور پر بڑھائے تاکہ پس انداز کر کے نہ صرف سابق قومی قرضوں کی اقساط مع سود ادا کی جائیں، بلکہ اس کے ساتھ بتدریج قرض کے حجم کو بھی کم کیا جائے۔
ہماری قومی بے حسی کا عالَم یہ ہے: بجٹ میں ہمارے پاس گنجائش نہیں ہے، بلکہ تمام بجٹ اشارے منفی ہیں، مجموعی قومی آمدنی اور مصارف کے تخمینے میں آٹھ ہزار پانچ سو ارب روپے کا خسارہ ہے، اس کے باوجود بجٹ دستاویز کے مطابق پی ایس ڈی پی (Public Sector Development Programme) کے لیے بجٹ میں پہلے سولہ سو چوہتر ارب رکھے گئے، بعد کو اس میں تخفیف کر کے اس کا حجم بارہ سو اکیس ارب کردیے گئے، یہ اعداد وشمار ہم نے مختلف ذرائع سے حاصل کیے ہیں، حقیقی اور قطعی اعداد وشمار دستیاب نہیں ہیں، پنجابی کہاوت ہے: ’’پلے نہیں دھیلا، کردی میلہ میلہ‘‘، غالب نے کہا تھا:
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
ایسی قوم جو قرضوں میں گلے گلے تک ڈوبی ہوئی ہے، مزید قرض لے کر ترقیاتی منصوبے بنانا کہاں کی دانش مندی ہے، البتہ سڑکوں اور پلوں وغیرہ کے موجودہ ڈھانچے کے بارشوں سے متاثر ہونے اور قدرتی آفات کے نتیجے میں رونما ہونے والی تباہی کی صورت میں تعمیر ومرمت کے لیے بجٹ میں رقوم مختص کرنا یقینا ضروری ہے، لیکن قرض لے کر روز نت نئے منصوبوں کے فیتے کاٹنا کہاں کی دانش مندی ہے، اس کے بجائے مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے عوام کو کوئی ریلیف فراہم کردیا جاتا تو بہتر ہوتا۔
المیہ یہ ہے برطانیہ جو کبھی سپر پاور تھا، آج بھی 10 ڈائوننگ اسٹریٹ لندن میں اس کے وزیر ِ اعظم کی رہائش گاہ تین یا چار بیڈ روم پر مشتمل ہے اور ان کا وزیر اعظم فٹ پاتھ پر آکر اپنے مہمان کا استقبال کرتا ہے، جبکہ ہمارے وطن ِ عزیز میں صدر، وزیر اعظم، تمام صوبائی گورنروں اور وزرائے اعظم کی رہائش گاہیں کئی ایکڑوں پر مشتمل ہیں اور اُن کی حفاظت ونگہداشت، تعمیر ومرمت اور عملے کے لیے ہر سال بجٹ میں غیرمعمولی رقم مختص کی جاتی ہیں، حتیٰ کہ اس سال بھی انتہائی اقتصادی بدحالی کے باوجود ان رقوم میں اضافہ کیا گیا ہے، یہ غریب قوم کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے، یہی صورتِ حال دیگر اعلیٰ عہدیداروں کے مشاہروں اور مراعات کی ہے۔
شدید ترین مالی دبائو سے نکلنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ان عشرت کدوں کو اوپن مارکیٹ میں شفاف طریقے سے نیلام کیا جائے اور ان سے حاصل شدہ رقوم کو قرضوں کی ادائیگی یا زیریں طبقات کو بجلی گیس وغیرہ کے بلوں میں رعایت دینے کے لیے ایک جامع اور قابلِ عمل اسکیم بنائی جائے۔ ہمارے ملک میں ہائوسنگ اسکیموں کا جال بچھ رہا ہے اور یہ سلسلہ بڑے شہروں تک محدود نہیں ہے، قصبات تک پھیلا ہوا ہے۔ بڑے پیمانے پر ہائوسنگ اسکیمیں انتہائی قیمتی زرعی زمینوں کو ہڑپ کر رہی ہیں اور کسی کو احساس نہیں ہے کہ پچاس سال بعد زرعی زمینیں سکڑ جائیں گی، جبکہ آبادی ڈبل ہوجائے گی، خدانخواستہ ملک خوراک کی قلت کا شکار بھی ہوسکتا ہے۔
پس لازم ہے فارم ہائوسوں اور دوکنال سے زیادہ بڑے مکانات پر پابندی لگائی جائے تاکہ یہ عالی شان محلات لوگوں کی غربت کا مذاق نہ اڑائیں، افقی پھیلائو کے بجائے بلند وبالا عمارتیں بنائی جائیں تاکہ کم جگہ پر زیادہ سے زیادہ آبادی کو سمویا جاسکے، الیکٹرک، گیس، واٹرسپلائی اور سیوریج کا نظام اعلیٰ معیار پر بنایا جاسکے اور اس میں کم از کم آئندہ پچیس سال کی ضرورتوں کو پیشِ نظر رکھا جائے۔
مزید یہ کہ ہر نئی لانچ ہونے والی اسکیم پر یہ پابندی عائد کی جائے کہ اس میں اسکول وکالج، مساجد ومدارس، اسپتالوں اور کھیل کے میدانوں، نیز قبرستانوں کے لیے بھی جگہیں مختص کی جائیں گی، آج کل ہر جگہ قبرستانوں کی قلت کا مسئلہ ہے۔
ہمارے زرِ مبادلہ کے ذخائر نو ارب کے لگ بھگ ہیں، جبکہ بھارت کے ذخائر ساڑھے چھے سو ارب ڈالر سے زیادہ ہیں، بھارت اپنی شرحِ نُمُوّ میں چین کو بھی پیچھے چھوڑ گیا ہے، جبکہ ہمار احال ابتر ہے۔ بھارت کی اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے مشاہرات، مراعات اور پنشن ہماری عدلیہ کے مقابلے میں تقریباً نصف ہیں، جبکہ گزشتہ کئی برسوں سے ہماری اعلیٰ عدلیہ عام فریادیوں کے مقدمات سننے کے بجائے سیاسی مقدمات میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے، کیونکہ اس سے ٹی وی چینلوں پر ٹِکر چلتے ہیں، پروگرام ہوتے ہیں، سوشل میڈیا پر چرچے ہوتے ہیں، جبکہ عوام کے حصے میں کچھ بھی نہیں آتا، سو ہماری عدالتی ترجیحات کی حقیقی تصویر یہ ہے۔
ایک کالم نگار نے برطانیہ اور پاکستانی کیبنٹ ڈویژن کے ٹرانسپورٹ فلیٹ کی گاڑیوں کی تعداد کا تقابل کیا تو ایک اور دس کی نسبت تھی۔ ظاہر ہے ان گاڑیوں کی نگہداشت، مرمت اور پٹرول و ڈیزل، نیز ڈرائیوروں کے مشاہرات پر خرچ ہونے والی رقوم کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔ انٹرنیشنل پاور پروجیکٹس یعنی آئی پی پیز بھی ایک ایسا ہاتھی ہے، جس کے بوجھ تلے ہماری معیشت کراہ رہی ہے، بتایا گیا ہے: ان کے ساتھ مختلف حکومتوں نے ایسے معاہدات کیے ہیں کہ یہ کارخانے بجلی پیدا کریں یا نہ کریں، بہر صورت ان کی پیداواری استعداد کے مطابق انہیں ادائیگی کرنی لازم ہے، یہی ہمارے گشتی قرضے ہیں اور ہماری معیشت پر کوہِ گراں ہیں۔ ان میں فنکاری یہ کی گئی ہے کہ کمپنیاں بیرونِ ملک آف شور جزائر میں رجسٹرڈ کی جاتی ہیں تاکہ انکم ٹیکس سے استثناء حاصل ہو اور پھر ان کمپنیوں کے ذریعے پاکستان سے معاہدات کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں بین الاقوامی قوانین اور بین الاقوامی عدالتِ انصاف کا تحفظ حاصل ہو، حکومتِ پاکستان کے ہاتھ بندھے رہیں، اگر ذرا بھی معاہدے سے انحراف کریں تو کارکے رینٹل اور رکوڈک کی طرح اربوں ڈالر کے جرمانے عائد ہوں، یہ بھی کہا جارہا ہے: ان کے اصل مالکان مقامی ہیں اور تینوں بڑی سیاسی جماعتوں میں سے کسی نہ کسی کے ہمدرد ہیں۔ اسی طرح متحدہ عرب امارات کی کمپنی اتصالات کے ساتھ پی ٹی سی ایل کی فروخت کا معاہدہ ہوا اور طویل مدت گزرنے کے باوجود تقریباً اسّی کروڑ ڈالر اب بھی اتصالات کے ذمے ہیں، لیکن معاہدے کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر وہ یہ رقم دینے سے انکاری ہے اور ہم غیردانشمندانہ معاہدے کے نتیجے میں اپنا جائز حق بھی وصول کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ وفاقی انتظامی ڈھانچے میں بہت سے ڈویژن غیر ضروری ہیں، لیکن بار بار کے اعلانات کے باوجود انہیں ختم نہیں کیا جاسکا، حالانکہ اٹھارہویں ترمیم کے نتیجے میں یہ محکمے صوبوں کو منتقل ہوچکے ہیں۔ لیکن ان محکموں کے وزیر بھی ہیں اور نوکر شاہی کا ایک انبوہِ کثیر ہے، ماضی میں ایک لطیفہ تھا: سوال ہوا: افغانستان میں ریل نہیں ہے، لیکن وزارتِ ریلوے ہے، اس پر جواباً کہا گیا: پاکستان میں تعلیم نہیں ہے، لیکن وزارتِ تعلیم ہے۔