برسوں سے فلسطینی مزاحمت کی قیادت کا مطلب اب یہ ہو کر رہ گیا ہے کہ ایک سنساتی ہوئی گولی، ایک چنگھاڑتا ہوا میزائل یا بم کا کوئی ٹکڑا معین وقت کے لیے اس کا منتظر ہے۔ جب بھی وقت آگیا یہ نظام حرکت میں آکر اپنا کام کرگزرے گا۔ حماس کے بانی شیخ احمد یاسین کی اسرائیل کی طرف سے داغے گئے کروز میزائل سے موت کے بعد تو یہ حقیقت اور بھی عیاں ہو کر رہ گئی کہ فلسطینی تحریک مزاحمت کی قیادت کا مطلب موت کا تعاقب ہے۔ شیخ احمد یاسین کی شہادت کے کچھ ہی عرصہ بعد اسرائیل نے ان کے جانشین عبدالعزیز رنتیسی کو بھی اسی انداز سے شہید کردیا تھا۔ اس کے بعد حماس کے سربراہ خالد مشعل کئی قاتلانہ حملوں میں بال بال بچ جاتے رہے اور اب اسرائیل نے حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو میزائل حملے میں شہید کر دیا۔ یوں اسماعیل ہنیہ فلسطین اور اپنے گھرانے کے شہیدوں کی کہکشاں کا حصہ بن گئے۔ وہی کہکشاں جس میں چند ہی ماہ قبل ان کے تین بیٹے اور تین معصوم پوتے پوتیاں بھی شامل ہو گئے تھے اور اسماعیل ہنیہ نے ہر فلسطینی کی طرح صبر واستقامت کے ساتھ یہ خبر سنی تھی۔ کیمرے کی آنکھ نے وہ لمحہ محفوظ کر لیا تھا جب قطر میں ان کی رہائش گاہ پر انہیں ان کے اہل خانہ کی شہادت کی خبر سنائی گئی تھی۔ یہ خبر سنتے ہوئے ان کا چہرے پر سرخی سی بکھر گئی تھی مگر عزم وہمت کا یہ پہاڑ پوری قوت سے اپنے قدموں پر کھڑا رہا۔ اب اسماعیل ہنیہ کو عین اس وقت ایران میں نشانہ بنایا گیا جب وہ ایران کے نو منتخب صدر مسعود پزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شریک ہوئے تھے۔ حلف برداری کی تقریب کے بعد مسعود پزشکیان اسماعیل کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے یکجہتی کا اظہار کر رہے تھے اور چند ہی گھنٹے بعد اسماعیل ہنیہ اپنے پیش رو راہنماؤں کے کارواں کا حصہ بن گئے۔
اسماعیل ہنیہ ذاتی حیثیت میں ایک دیانت دار اور پرعزم انسان تھے اس کا اعتراف ایک اسرائیلی یہودی اور اس کی بیٹی نے بھی کیا۔ اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ میں ایک تعمیراتی کنٹریکٹر ڈینی میخلاف نے ایک ستر کی دہائی میں اسماعیل ہنیہ کے ساتھ اپنی یادیں بیان کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ 1978 کا سال تھا جب اسماعیل ہنیہ کی عمر سولہ سال تھی اور اس وقت فلسطینی حدود میں آزادی کے ساتھ داخل ہو سکتے تھے۔ اسماعیل ہنیہ ان کے ساتھ پلستر کا کام کرتے تھے اور میں نے انہیں کام سکھایا۔ وہ ایک عظیم انسان تھا۔ دیانت دار، ذہین شخص تھا اور وہ قطعی ناسمجھ نہیں تھا۔ یہودی کنٹریکٹر کی بیٹی نے زہاوا میخلاف نے بھی اسماعیل ہنیہ کے ساتھ بیتے دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ وہ میرے والد کے ساتھ برسوں کام کرتے رہے اور ہمارے گھر میں آنا جانا تھا۔ ہم چاہتے تھے کہ وہ اپنے لوگوں کے لیے کچھ تعمیری کام کریں مگر وہ دوسرے راستے پر چل نکلے۔ خود کنٹریکٹر نے انہیں یاد کرتے ہوئے کہا جب مجھے پتا چلا کہ اسماعیل ہنیہ مزاحمتی تحریک میں شامل ہو چکے ہیں تو میں انہیں سمجھانے بجھانے غزہ آیا۔ جہاں چہار سو ماسک پہنے نوجوان تکبیر کے نعرے بلند کر رہے تھے۔ ایسے میں ایک مشتعل ہجوم ایک اسرائیلی کو اپنے درمیان پا کر آمادہ تشدد ہونے لگا تو ایک نوجوان نے اپنا ماسک ہٹایا اور ہجوم کو کہا یہ تو میرا باس ہے پیچھے ہٹ جاؤ۔ ہجوم پیچھے ہٹ گیا تو اسماعیل ہنیہ نے مجھے بتایا کہ تم یہاں کیوں آئے۔ ہجوم تمہیں مار دیتا۔ یوں ایک اسرائیلی اور یہودی کو اسماعیل ہنیہ سے صرف ایک گلہ معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے خود کو آزادی فلسطین کے لیے کیوں وقف کیا۔ بطور انسان وہ اسماعیل ہنیہ کی ذہانت امانت اور دیانت کے معترف ہی نظر آیا۔ تعریف وہی ہے جو دشمن کرے اور یہ کسی شخص کی بلند کرداری ہوتی ہے کہ دشمن بھی اس کی موت پر کف ِ افسوس ملتا ہے۔
اسماعیل ہنیہ کو قطر کے بجائے ایران میں نشانہ بنانے کا مقصد حماس کے لیے تو ایک پیغام ہے کہ اس کی قیادت جب اور جہاں ملے گی اسرائیل انہیں نشانہ بنانے سے نہیں چْوکے گا مگر یہ ایران کے لیے اصل پیغام تھا۔ ایران کی سلامتی اور تحفظ کے نظام کا مذاق اُڑانے کے مترادف بھی تھا کہ اسرائیل جب چاہے ان کے سرکاری مہمان کو دارالحکومت تہران کے وسط میں سرکاری مہمان خانے کے اندر بھی نشانہ بنا سکتا ہے۔ ایسے میں ایران کی اپنی قیادت اور شخصیات کیونکر محفوظ ہو سکتی ہیں۔ اسماعیل ہنیہ کو اس انداز سے نشانہ بنانے کے پیچھے ایران کی سلامتی کے نظام کو بالکل صدام حسین کے عراق جیسا ثابت کرنا ہے۔ جب دوسری خلیجی جنگ میں صدام حسین امریکی اور اتحادی فوجوں کے لیے عراق کو قبرستان بنانے کے دعوے کر رہے تھے۔ اپنی فوجی طاقت کی مضبوطی اور دفاعی نظام کی قوت کا فخریہ اعلان کررہے تھے اور ان کے وزیر اطلاعات سعید الصحاف امریکی فوجیوں کو کچا چبانے کے دعوے کر رہے تھے مگر جب امریکی فوجیں عراق میں داخل ہوئیں تو سب کچھ ڈھیر ہوگیا۔ یہ فوجی قوت نظر آئی نہ مزاحمت توقعات کے مطابق ہوئی۔ تہران کے وسط میں اسرائیل نے اپنے ہائی ویلیو ٹارگٹ کو جالیا تو اس سے ایران کے دفاعی نظام کے دعوؤں کے آگے کئی سوال کھڑے ہوگئے۔ ایران نے اس واقعے کو ایک چیلنج کے طور پر قبول تو کر لیا مگر وہ کیا ردعمل ظاہر کرتا مستقبل کی اعصابی اور عملی کشمکش کا انحصار اسی پر ہے۔