سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فوکس نیوز ٹیلی ویژن کو اچانک انٹرویو دیتے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم سے ملاقات سے تین دن قبل یہ اعلان کیا کہ وہ اسرائیل کے مخالف نہیں ہیں حقیقت میں ٹرمپ یہ چاہتے ہیں کہ اسرائیل کو غزہ میں جنگ جیت کر اس کام کو جلد ختم کرنا چاہیے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ 15 برس پیش تر واشنگٹن کی طاقتور ترین لابی اسرائیل تھی، تاہم آج بعض ڈیموکریٹ شخصیات اور صدر بائیڈن کی بنا پر یہ اپنی سابقہ طاقت سے عاری ہے۔ جس کو بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ سابق امریکی صدر نے غزہ کی صورتحال اور امریکا اسرائیل تعلقات پر اپنا جائزہ پیش کیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ 7 اکتوبر کو جو اسرائیل کے ساتھ ہوا اسے بھلا دیا گیا ہے، ٹرمپ نے کہا کہ ان حملوں کو یاد رکھنا چاہیے اور اسرائیل کو امریکی سیاست میں ’’پہلے کی طرح‘‘ مضبوط ہونا چاہیے۔ ریپبلکن سیاست دان نے کہا کہ ’’اسرائیل کو یہ کام جلد اور طاقتور طریقے سے ختم کرنا چاہیے اور معمولات ِ زندگی کو لوٹنا چاہیے کیونکہ یہ معاملہ کافی طویل ہو گیا ہے، انہیں فتحیاب ہو کر اپنا مشن ختم کر دینا چاہیے‘‘۔
یہ وہ ساری صورتحال ہے جس کا میں اس کالم سے قبل چھپنے والے کالم میں کر چکا ہوں ڈیموکریٹ اور ریپبلکن سیاست دان اصل میں امریکا کی طاقت کو اسرائیل کی مدد سے مسلمانوں کو دنیا سے ختم کرنے کے لیے کھلے عام استعما ل کرنا چاہتے اور اس کے برعکس پاکستان سمیت ساری دنیا کے مسلمان حکمران اور عوام کی بڑی تعداد اس تصور اور خواب میں گم ہیں بائیڈن کے بعد ٹرمپ آئے گا تو غزہ کی جنگ فوری بند ہو جائے گی۔ ٹرمپ نے تو غزہ میں شہادتوں پر تو کچھ بھی بولنے کی جسارت نہیں جس کی جرأت کملا ہیرس کر گئیں۔ سی این بی سی نیوز کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو نے ممکنہ ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار کملا ہیرس سے غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کے امکان پر تبادلہ خیال کے لیے الگ الگ ملاقات کی ہے۔ اطلاعات کے مطابق ہیرس نے اسرائیلی رہنما سے ملاقات کے فوری بعد اخباری نمائندوں کو بتایا کہ انہوں نے غزہ میں ’’تباہ کن‘‘ انسانی صورتحال اور تنازعے میں ہلاکتوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکا، ’’ان سانحات سے منہ نہیں موڑ سکتا۔ انہوں نے کہا انہوں نے نیتن یاہو سے کہا کہ غزہ کے لوگ نو ماہ سے مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب ہانکے جارہے ہیں یہ سب کچھ امریکا کے لیے ناقابل قبول ہے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ غزہ میں جلد جنگ بندی کے لیے صدر بائیڈن کے مطالبے کا اعادہ کرتے ہوئے، وہاں کم از کم اتنے وقت کے لیے کہ جنگ بند کی جائے جس دوران انسانی ہمدردی کی بنیاد پر وہاں زیادہ سے زیادہ امدادی سامان پہنچایا جاسکے۔ اس کے علاوہ اسرائیلی یرغمالیوں کو حماس کے قبضے سے چھڑایا جا سکے جن کی جان کو خطرہ ہے۔
کملاہیرس نے یہ سب کچھ اس قدر عجلت میں کیا جس کی توقع امریکی انتظامیہ کو نہیں تھی جس کی وجہ سے وہاں بھونچا آگیا اور فوری طور سے وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی مید ان میں آئے اور انہوں اعلان کیا کہ ’’کملا ہیرس نے اسرائیل وزیر اعظم نیتن یاہو سے بے تکلف اور تعمیری ملاقات‘‘ کے بعد اپنے ریمارکس میں کہا کہ وہ اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کی حمایت کرتی ہیں۔ ترجمان جان کربی کا کہنا تھا کہ اسرائیل اور حماس کے عسکریت پسندوں کے درمیان، جن کے پاس غزہ کے محصور علاقے کا کنٹرول ہے، جنگ بندی کے سلسلے میں اختلافات باقی ہیں لیکن ’’ہم پہلے کے مقابلے میں اب کسی معاہدے کے زیادہ قریب ہیں‘‘۔
اس سے چند گھنٹے قبل، صدر جو بائیڈن نے نیتن یاہو کے ساتھ بات چیت میں غزہ میں جنگ بندی پر زور دیا۔ سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملے کے چند دن بعد جب بائیڈن نے اسرائیل کا دورہ کیا تھا اور اس کی حمایت کا اظہار کیا تھا، اس کے بعد سے یہ دونوں رہنماؤں کے درمیا ن پہلی بالمشافہ ملاقات تھی۔ امریکی صدر بائیڈن اور اسرائیلی وزیر اعظم وائٹ ہاؤس کے اوول ہاؤس میں بالمشافہ ملاقات کے دوران، 25 جولائی 2024 کو ایک امریکی عہدے دار نے کہا ہے کہ ہیرس، جو جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والی امریکاکی ایک اولین ممتاز رہنما ہیں، توقع کی گئی تھی کہ وہ فلسطینیوں کی حالت زار پر توجہ مرکوز رہتے ہوئے اور اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے حق دفاع کی حمایت اور انتظامیہ کے موقف کی پوری طرح سے پیروی کریں گی۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان میٹ ملر نے کہا: ’’میرا خیال ہے کہ اس ملاقات میں امریکی جانب سے نیتن یا ہو کو پیغام یہ ہوگا کہ ہمیں اس معاہدے کو اب طے کر لینا چاہیے‘‘۔ جس کو بائیڈن نے اسرائیل کے حوالے کر دیا ہے نیتن یاہو کادورہ ایک ایسے وقت ہوا جب امریکی سیاست ایک تبدیلی کے عمل سے گزر رہی ہے۔ 81 سالہ بائیڈن ڈیموکریٹس کے دباؤ میں امریکی صدارتی دوڑ سے دستبردار ہوگئے تھے اور پارٹی کی 2024 کی صدارتی امیدوار کی نامزدگی کے لیے کملا ہیرس کی حمایت کی تھی۔ اس موقع پر نیتن یاہو نے بائیڈن سے کہا کہ ’’میں اسرائیل کے لیے 50 سال کی حمایت کے لیے آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ اس سے قبل بائیڈن اور نیتن یاہو نے حماس کے پاس قید امریکی یرغمالیوں کے خاندانوں سے ملاقات کی تھی۔ خاندانوں کے نمائندوں نے ملاقات کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ وہ جنگ بندی کے کسی ایسے معاہدے کی امید کر رہے ہیں جس کے تحت یرغمالوں کو گھر واپس لایا جائے گا۔ بائیڈن دوسری مدت کے لیے صدر نہیں ہوں گے اور کملاہیرس، ریپبلکن حریف ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف صدارتی الیکشن میں جانا چاہتی ہیں، نیتن یاہو پر کوئی اثر ڈال سکتے ہیں۔ فی الحال یہ ایک حقیقت ہے کہ اسرائیل کے معاملے میں کملا ہیرس نے بائیڈن کے ساتھ منسلک ہونے کے باوجود نسبتاً سخت لہجہ اختیار کیا ہے۔ لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ لہجے کی سختی پالیسی کو تبدیل کر دے گی۔
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے امریکا کے سابق صدر اور دوسری بار صدارت کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی ہے جس میں ٹرمپ نے کھل غزہ میں اسرائیلی قتل عام کی حمایت کی اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے کہا کہ وہ بھر پور حملہ کرکے حماس کو ختم کر دیں۔ ملاقات فلوریڈا میں ٹرمپ کی رہائش گاہ پر ہوئی۔ نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ یرغمالیوں کی رہائی کے لیے وفد اگلے ہفتے روم جائے گا۔ ٹرمپ نے کہا کہ امریکا کی نائب صدر اور ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار کملا ہیرس کا اسرائیل سے متعلق بیان توہین آمیز ہے۔ واضح رہے کہ اسرائیلی وزیراعظم سے ملاقات میں کملا ہیرس نے غزہ میں اموات پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا اور واضح کیا تھا کہ غزہ کی صورتحال پر خاموش نہیں رہیں گے۔ جس پر سابق امریکی صدر ٹرمپ شدید تحفظات ہیں یا کملا ہیرس سے شکست کے خوفزدہ ہیں؟