جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے منتخب ہونے کے ساتھ ہی جہاں وہ مظلوموں کی آواز بنے وہاں انہوں نے کھرا اور کھوٹا، قائد بے نقاب کرنے اور عوام کے جذبات کی ترجمانی کرنے والے نام نہاد لیڈروں کے چہروں سے نقاب نوچنے کے لیے بجلی کے ستائے ہوئے صارفین کی کسوٹی اسلام آباد میں دھرنے کی صورت میں رکھ کر دعوت عام دی کہ آئیں اس عوامی مسئلے میں شریک ہو کر دلیل کی دنیا میں ثابت کریں کہ آپ عوام کے ترجمان ہیں یا خواص کی خواہشوں کو پورا کرنے والے ہو، بجلی کے بلوں سے بلبلانے اور خودکشی کرنے والوں کا مرہم نہیں۔ اس کسوٹی نے ایک غزوہ کی یاد تازہ کردی کہ جب منافقین کا ایک گروہ گرمی اور دیگر بہانوں سے لشکر مصطفوی سے جدا ہوگیا تو رسول اللہؐ نے فرمایا جو جانا چاہتا ہے وہ چلا جائے میں اکیلا ہی لڑوں گا تو سرفروشان اسلام نے جواباً کہا کہ ہم موسیٰؑ کے حواریں کی طرح ہرگز نہیں کہیں گے کہ ’’تم اور تمہارا خدا لڑو‘‘ بلکہ جان قربان کرکے اپنے عہد دیں کو سچا ثابت کریں گے۔ اب بھی صورت حال کچھ یوں ہے ایک پی ڈی ایم کی حکومت ہے جو اس میں فریق ہے اور وہ غیظ و غضب کا ہے۔ دوسری طرف جماعت اسلامی ہے جو عوام کے جذبات کی ترجمان ہے اور تیسرا طبقہ وہ ہے جو تقریروں میں تو باتیں عوام کی کرتا ہے مگر میدان سے فرار ہے کیوں؟ کہ چٹ ہوجائے تو بھی ان کی پٹ ہوجائے تو بھی ان کی۔ ان میں عوامی قائد کہلانے والے تو ہیں ہی مگر دستار، جبہ قبہ والے بھی دور کھڑے تماش بین ہیں۔
بات صرف یہ ہے کہ یہ بجلی کے بھاری بلوں سے متاثرہ ہرگز نہیں ہیں۔ طبقہ اشرافیہ مفت کی بجلی کا حقدار بنا ہوا ہے تو حکمران پارٹی کے عہدیدار، ورکر، حمایتی بجلی کی چوری اپنی حکمرانی کا حق سمجھے ہوئے ہیں اور چوری کی بجلی کی لوٹ مچائے ہوئے ہیں۔ رہا مسلکی لیڈروں کا معاملہ ان کی درس گاہوں، مدارس، مزاروں، مسلکی تقریبات کا بیش تر معاملہ مفت بجلی پر ہے جس کو یہ چوری نہیں سمجھتے بلکہ یہ کہتے ہیں کہ ہم بجلی کمپنیوں کو یوں ثواب کا حصہ دار بناتے ہیں۔ یہ تو دونوں سمجھتے ہیں کہ دل کو بہلانے کو یہ خیال اچھا ہے۔ بھلا اور کیا وجہ ہے کہ اسلام کے نام لیوا کیوں خاموش تماشائی ہیں، یہ کیوں دیکھ رہے ہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
اب بجلی مہنگی کے فیصلے نے جس کو حکومت، ملک اور قوم کے مفاد میں قرار دے رہی ہے اس نے بجلی چوری کرنے پر اُس طبقے کو بھی مجبور کردیا جو بل ادا کرے یا بھوکا مرے، وہ ہزار دو ہزار روپے ماہ وار پر خوب کھلے ڈھلے بجلی کی چوری میں مصروف ہوگیا نہ اسے یہ فکر اور فاقہ ہے کہ آج بجلی کے نرخ اتنے روپے یونٹ بڑھ گئے، اُس کی بلا سے، بجلی کی چوری بڑھی ہے تو یہ عتاب بھی ان صارفین پر ڈیڈکش کی صورت میں ڈالا جارہا ہے جو رزق حلال کو عین عبادت سمجھتے ہیں اور اگر کوئی بجلی چوری کا ارتکاب کرنے کا انکاری ہو اور میٹر لگا کر بل ادا کرنے کی ضد کرے تو اس کا میٹر چوری کرا دیا جاتا ہے۔ جیکب آباد کے کالم نگار طارق تنولی جو پروفیسر ہیں وہ اس صورت حال سے دوچار کردیے گئے۔ دھرنے نے کئی نقاب نوچ ڈالے۔