یہ ستر کی دہائی سے قبل کی بات ہے۔ جب نوجوان باغی ’’ہپی‘‘ کہلاتے تھے یہ باغی صلح جو ہوتے تھے ان کی بغاوت، ثقافت، تہذیب اور سرمایہ دارانہ ذہنیت سے تھی، لباس اور برتائو میں آزاد منش ہوتے تھے، بال نہیں کٹوتے، نہاتے کم کم تھے، کپڑے کم پہننا پسند کرتے تھے، جینز کا استعمال ان ہی کے ذریعے عام ہوا اور فیشن میں آگیا کہ جینز کی ایک پینٹ میں آدھی زندگی گزار دیتے اور دھونے دھلانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یہ نوجوان جن میں عورتیں بھی شامل ہوتیں یورپ سے منشیات کی تلاش میں نکلتے، نشے کی تلاش میں گروہ در گروہ نکلنے والے ان ہیپوں کو ’’ہپی ٹریل‘‘ کہا جاتا تھا حشیش گانجا بھی ان کی زندگیوں کا ایک اہم جُز تھا۔ یہ اپنے آپ کو مال و دولت سرمایہ دارانہ طرزِ زندگی کا باغی کہتے، یہ دولت مندوں کے چشم و چراغ بھی ہوتے لیکن خالی ہاتھ سب کچھ چھوڑ چھاڑ یہ دنیا کے سفر پر نکل پڑتے۔ یہ نہ کسی رہنما کے زیر اثر ہوتے نہ ہی کسی تہذیب و ثقافت کے۔ ان کی اپنی ہی الگ تہذیب تھی جس نے کسی بھی طرح کے میڈیا کی مدد کے بغیر اپنے اثرات دنیا میں ڈالے۔ سب سے بڑا اثر تو منشیات کا زیادہ استعمال تھا۔ ان کا سفر یورپ استنبول کے راستے ایشیا میں ایران، پاکستان اور افغانستان تک ہوتا تھا۔ ان کی حقیقی منزل کابل اور ہرات سمجھی جاتی تھی۔ بعض اوقات وہ مرسڈیز گاڑیوں کے قافلے کی صورت زمینی سفر کرتے۔ یہ ان مرسڈیز کو مکمل گھر کی طرح استعمال کرتے۔ کسی بھی ہوٹل کی پارکنگ میں کھڑی کرکے وہ وہاں کچھ دن رہتے اور پھر آگے نکل جاتے۔ اپنے بچپن میں ہم نے ان ہیپی ٹریل کو سات، آٹھ اور دس کی تعداد میں گاڑیوں کے قافلوں کی صورت میں پشاور سے آگے سوات جاتے دیکھا ہے۔ ان کی اصل دلچسپی آزاد زندگی اور نشہ ہوتی تھی۔ سوات ہوٹل جو اب سرینہ ہوٹل میں بدل گیا ہے وہاں سیب کے درختوں کے سائے میں بیٹھے اپنے نشے کو انجوائے کررہے ہوتے تھے۔
خیر یہ کالم ہم نے ہیپی ٹریل کے بارے میں بتانے کے لیے نہیں لکھا بلکہ اُس سے آگے افغانستان کی سیاحت پر بات کرنے کے لیے لکھا ہے۔ اس وقت سے لے کر آج تک افغانستان میں سیاحت موجود رہی سوائے درمیان کے کچھ عرصے کے، جس میں طالبان کا پہلا اقتدار جو کہ بامیان کے بدھا کے مجسموں کا منہ توڑنے اور اسامہ کی میزبانی سے ہاتھ نہ اُٹھانے کے سبب ختم ہوا پھر امریکی حملوں کا ایک عرصہ گزرا، جبکہ سیاح افغانستان کی طرف رُخ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ لیکن اب افغانستان میں سیاحت کی صنعت طالبان کے دوسرے دور اقتدار میں ناصرف یہ کہ موجود ہے بلکہ غیر معمولی طریقے سے عروج پر بھی ہے، جب یہ بتایا جاتا ہے کہ 2021ء میں افغانستان جانے والے سیاحوں کی تعداد صرف 691 تھی جو بڑھ کر اب 7 ہزار سے زیادہ ہوگئی ہے۔ سیاحوں نے افغانستان کو کیوں چنا ہے؟ اس سوال کا جواب شاید یہ ہوسکتا ہے کہ افغانستان نے اُن کا دل جیت لیا۔ سیاح ہمیشہ حقیقی زندگی اور اچھوتی جگہ دیکھنا چاہتے ہیں، لہٰذا وہ دراصل حقیقی افغانستان دیکھنا چاہتے ہیں۔ طالبان حکومت کے ٹورزم ڈائریکٹوریٹ کے سربراہ کہتے ہیں کہ ان کا خواب ہے کہ ان کا ملک سیاحت کا مرکز بن جائے۔ خاص طور سے چینی سیاحوںکا جن پر ان کی نظریں مرکوز ہیں۔ کابل میں طالبان کی منظور شدہ مہمان نوازی کی کلاسیں ہورہی ہیں نوجوانوں کی بڑی تعداد اس میں شریک ہیں۔ کیونکہ سیاحت کسی ملک میں ملازمتیں اور مواقع پیدا کرنے کا باعث ہوتی ہیں۔ افغانستان میں انفلونسرز ویلاگر اس بات کو پرجوش طریقے سے پروموٹ کررہے ہیں کہ ’’آپ کا اگلا سفر افغانستان ہونا چاہیے‘‘۔ وہ وہاں کی چمکتی جھیلوں، پہاڑی راستوں، بدھا کے آثار، پر رونق بازار اور بستیوں کو دکھا رہے ہیں۔ بعض تو اپنی ویڈیوز کے ساتھ یہ بھی لکھ رہے ہیں کہ ’’افغانستان پچھلے بیس برسوں میں اتنا محفوظ کبھی نہیں رہا‘‘ یہ سوال کہ افغانستان کی سیاحت کی صنعت کس وجہ سے ترقی کررہی ہے اہم ہے۔ جواب یہ دیا جاسکتا ہے کہ شاید طالبان دنیا کو اپنی کامیابیوں کی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں یا انہیں اس وقت اپنے ملک کے لیے پیسہ چاہیے جبکہ افغانستان کے بینکوں میں پڑے پیسے کو منجمد کردیا گیا ہے جواب جو بھی ہو اہم یہ ہے کہ طالبان اپنے ملک کو بڑی خوبی سے پرامن بنا چکے ہیں۔