کراچی (رپورٹ:منیر عقیل انصاری) ایران کواسرائیل سے اسماعیل ہنیہ کی شہادت کا بدلہ لینا چاہیے اگر ایران بدلہ نہیں لیتا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اسرائیل اور امریکا کے گٹھ جوڑسے فلسطینی رہنما پرحملے اورقتل کی سازش میںایران بھی شامل ہے۔ ایران انتہائی کمزور ملک ہے اس کی انٹیلی جنس انتہائی کمزور ہے ایران کے اپنے اندر کہ معاملات اور مسائل اتنے پیچیدہ ہیں کہ وہ کسی بھی صورت میں اسرائیل پرحملے کاسوچ نہیںسکتا۔زبانی جمع خرچ اوربلندبانگ دعوے بالکل الگ چیزہیں،عملی طور پر دیکھیں توجب سے یہ معاملات چل رہے ہیں ایران نے سوائے زبانی کلامی نعروں کے کچھ بھی نہیں کیانہ ہی ایران سے مزید توقعات رکھی جاسکتی ہیں،یہ ضرورہے کہ ایران نے فوری طور پر اس سانحہ کو ٹیک اپ نہیں کیا تو یہ ایک بین الاقوامی مسئلے کے طور پر سامنے آسکتا ہے۔ان خیالا ت کا اظہار جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما اور چترال سے قومی اسمبلی کے سابق رکن مولانا عبدالاکبر چترالی، ،معروف مذہبی اسکالر اور اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے رکن مفتی محمد زبیر،پاکستان کے مشہور و معروف موٹیویشنل اسپیکر ماہر تعلیم، معروف تجزیہ کار اور کئی کتابوں کے مصنف پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف صدیقی اوردفاعی تجزیہ کار، ڈائریکٹر جنرل ساؤتھ ایشین اسٹرٹیجک اسٹے بیلیٹی انسٹی ٹیوٹ اسلام آبادڈاکٹر ماریہ سلطان نے جسارت کی جانب سے پوچھے گئے سوال:کیا ایران اسماعیل ہنیہ کی شہادت کا بدلہ لے گا؟کے جواب میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔اس سلسلے میں مولانا عبدالاکبر چترالی نے کہا کہ بات یہ ہے کہ ایران کو اس کا بدلہ لینا چاہیے اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر ایران اس کا بدلہ نہیں لیتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایران بھی اس قتل اور سازش میں شامل ہے اور ان کی شہادت کے خلاف جو سازش اسرائیل اور امریکا کے گٹھ جوڑ سے ہوا ہے اس میں شریک ہے میرے خیال میں ایران اس کا جواب دے گا اور دینا چاہیے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اس تلخ اور المناک واقعہ کے بعد جو اسلامی جمہوریہ کی سرحدوں میں پیش آیا ہے اس کا بدلہ لینا ایران پر فرض ہے۔مجھے امید ہے کہ ایران اپنی علاقائی سالمیت اورعزت کا بھر پور دفاع کریگا اور اسرائیل سے ضرور بدلہ لے گا۔مفتی محمد زبیر نے کہاکہ قائد طوفان اقصیٰ مقاومتی و مزاحمت کے سربراہ شہید اولاد بلکہ خاندان کے 70شہداء کے وارث اور ایک مہمان مسافر شیخ اسماعیل ہنیہ کی ایسی مظلومانہ شہادت سے شہداء کربلا کی یاد تازہ ہوگئی ہے یہ کربناک سانحہ صدی کے عظیم سانحات میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا امت مسلمہ کے دل چھلنی ہوگئے ہیں اور ہر دل درد مند کی آنکھیں اشکبار ہے۔پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف صدیقی کاکہنا تھا کہ ایران اسماعیل ہنیہ کی شہادت کا بدلہ لے گا یا نہیں یہ جاننے سے پہلے ایک سوال اٹھتاہے کہ مسلم مزاحمتی اور جہادی رہنما ایران سے واپسی پر ہی کیوں شہید ہوتے ہیں مثلا طالبان سربراہ ملا اختر منصور 21 مئی 2016 کو ایران سے واپس افغانستان جا رہے تھے کہ میزائل حملہ ہوا شہید کر دیے گئے حماس کے نائب سربراہ صالح العروری لبنان میں حزب اللہ کے سربراہ سے ملاقات کر کے واپس آ رہے تھے تو2 جنوری 2024 کو میزائل حملے میں شہید کر دیے گئے اور آج 31 جولائی 2024 کو حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو بھی ایران میں شہید کر دیا گیا ہے اب سوال یہ ہے کہ ایران کی سیکورٹی اتنی ناقص کیوں ہے کہ جو بھی مسلم رہنما وہاں جاتا ہے اسے شہید کر دیا جاتا ہے یہ توہے پہلا سوال اس کے بعد آگے آپ دیکھیں کہ ایرانی نائب صدر نے حالیہ یہ بیان دیا ہے جو آر ٹی وی اردو پہ پڑھا گیا ہے اس میں انہوں نے کہا ہے اسکائی نیوز العربیہ کے مطابق ایرانی نائب صدر محمد رضا عارف کا کہنا ہے کہ ہم معاملے کو طول دینے کی کوئی نیت نہیں رکھتے ہیںہم حماس کی حمایت جاری رکھیں گے اور چاہیں گے کہ ایران براہ راست اس مسئلے میں نہ پڑے۔یہ حقیقت ہے کہ ایران انتہائی کمزور ملک ہے اس کی انٹیلیجنس انتہائی کمزور ہے ایران کے اپنے اندر کہ معاملات اور مسائل وہ اتنے پیچیدہ ہیں کہ وہ کسی بھی صورت میں اسرائیل کے اوپر حملہ کرنے کا نہیں سوچ سکتا زبانی کلامی باتیں کرنا بلند و بانگ دعوے کرنا یہ بالکل ایک اور چیز ہے پر یکٹیکلی اگر اپ دیکھیں تو جب سے یہ معاملات چل رہے ہیں ایران نے سوائے زبانی کلامی نعروں کی کچھ بھی نہیں کیا تو آئندہ بھی اس بات کی توقع نہ رکھیں۔ڈاکٹر ماریہ سلطان نے کہاکہ اسرائیل نے یہ تمام اقدام بذات خود تو نہیں کیے ہیں ان کو مکمل سرپرستی امریکا اور ان کے اتحادیوں کی حاصل ہے اس صورتحال میں اسلامی ممالک کو آگے بڑھنا ہوگا اور ہمیں ریاست فلسطین کی آزادی کے لیے بھر پور کام کرنا ہوگا،انہوں نے کہاکہ موجودہ صورتحال میں یہ ایران کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے، ایران کو اندرونی طور پر اپنی انٹیلی جنس کو دیکھنا چاہیے ایران میں یہودی انٹیلی جنس کی بہت زیادہ اثرورسوخ ہے ا ور اس حوالے سے ایران کو اپنے انٹیلی جنس سسٹم پر نظرڈالنی چاہیے اگر ایران نے فوری طور پر اس سانحہ کو ٹیک اپ نہیں کیا تو یہ ایک بین الاقوامی مسئلے کے طور پر سامنے آسکتا ہے۔