عوامی مسائل پر پہلا دھرنا

417

جماعت اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمن کی اپیل پر 26جولائی بروز ہفتہ سے اسلام آبادکے ڈی چوک پر پورے ملک سے آئے ہزاروں کارکنان جمع ہوئے لیکن اسلام آباد کی انتظامیہ نے وعدے کے مطابق دھرنے کے شرکاء کو ڈی چوک پر بیٹھنے نہیں دیا اس کے بعد یہ دھرنا مری روڈ پر دیا جارہا ہے۔ مہینوں پہلے حافظ نعیم الرحمن نے 12جولائی کی تاریخ دھرنے کے لیے طے کی تھی لیکن پھر وزیر داخلہ محسن نقوی نے جماعت کی قیادت سے درخواست کی کہ محرم کے پیش نظر اس دھرنے کو آگے بڑھا دیا جائے چنانچہ جماعت نے نئی تاریخ 26 جولائی کا اعلان کیا پورے ملک سے قافلے اسلام آباد پہنچ گئے لیکن اسلام آباد کی انتظامیہ نے کنٹینرز لگا کر پورے شہر کو سیل کردیا۔ پھر جماعت نے اس دھرنے کو تین مقامات پر کردیا اس وقت بڑا دھرنا راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ہورہا ہے جس کا آج تیسرا دن ہے دھرنے کو جماعت کی قیادت اتوار کے دن جلسہ عام میں تبدیل کردیا اس لیے اتوار کی شام بعد نماز مغرب مری روڈ پر ایک بہت بڑا جلسہ رکھا جس وقت آپ یہ تحریر پڑھ رہوں گے جلسہ ہوچکا ہوگا۔

اس دھرنے کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ پہلا ایسا عوامی دھرنا ہے جو عوامی مسائل کو ایڈریس کررہا ہے 2014 میں ایک سو بیس دن سے زائد کا دھرنا عمران خان نے نوازشریف کی حکومت کے خلاف دیا تھا۔ اس میں وہ نواز شریف سے استعفے کا مطالبہ کررہے تھے اور انہوں نے کئی بار اپنی تقریر میں کہا تھا کہ بس امپائر کی انگلی اٹھنے والی ہے اس سے صاف ظاہر تھا کہ وہ کسی کے اشارے پر یہ دھرنا دے رہے ہیں اور اشارہ کرنے والوں کے جب اپنے مقاصد پورے ہوگئے تو دھرنا ختم کردیا گیا۔ یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ 2013 میں نواز شریف صاحب جس طرح کامیاب ہوئے اس میں شفافیت کا فقدان تھا اس وقت پورے ملک میں عمران خان کی سیاسی پوزیشن بہت مضبوط تھی اگر ن لیگ کی مرضی سے پنجاب میں ریٹرننگ آفیسرز مقرر نہ کیے جاتے تو پنجاب میں ن لیگ کا جیتنا مشکل ہوجاتا ہم یہ بات نہیں کہہ رہے کہ نواز شریف کی سیاسی پوزیشن کمزور تھی اور وہ بری طرح ہار جاتے لیکن اتنی مضبوط بھی نہیں تھی کہ وہ واضح اکثریت سے جیت گئے۔ اسی لیے عمران خان نے اس الیکشن کے بارے میں کہا کہ یہ تو آر اوز کے انتخابات ہیں اور انہوں نے چار نشستوں کے بارے میں کہا کہ یہاں پر دوبارہ گنتی کی جائے لیکن ان کی بات نہیں مانی گئی پھر جب عدالت کے ذریعے ان چاروں نشستوں پر دوبارہ انتخابات ہوئے تو چار میں سے تین پر پی ٹی آئی کے لوگ کامیاب ہوئے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جب نواز شریف وزیر اعظم بنے تو انہوں نے اعلان کیا کہ وہ پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ چلائیں گے اور ان کو گرفتار بھی کرلیا گیا پھر جب طویل دورانیے کے دھرنے کے بعد نوازشریف اپنے موقف سے پیچھے ہٹے اور پرویز مشرف کو علاج کے لیے باہر جانے کی اجازت دیدی گئی تو پھر دھرنا بھی ختم ہوگیا۔ اس کے بعد ٹی ایل پی نے بھی اسلام آباد کے حساس مقام پردھرنا دیا تھا وہ دھرنا ٹی ایل پی نے کیوں اور کس کے اشارے پر دیا تھا اس پر تو میڈیا سے لے کر انصاف کے ایوانوں تک بڑی گرما گرم بحثیںچلی ہیں اور ٹی وی میں ایک تصویر تو میں نے خود دیکھی تھی کہ ایک باوردی فرد دھرنے کے شرکاء کو لفافے تقسیم کررہا ہے جس کے بارے میں بعد میں اخبارات میں یہ آیا کہ انہیں واپسی کے کرائے دیے گئے تھے۔ پھر عمران خان کی حکومت میں مولانا فضل الرحمن نے بھی ایک ہفتے کا دھرنا دیا تھا اس دھرنے کے بارے بھی بعد میں یہی آیا کہ ٹی ایل پی کے دھرنے کی طرح یہ بھی کسی خفیہ قوت کے اشارے پر دیا گیا اور اسی اشارے پر ختم کردیا گیا۔

جماعت اسلامی کا یہ دھرنا جماعت کی اپنی مجلس شوریٰ کے فیصلے کے تحت طے کیا گیا اور اس کا اختتام بھی شوریٰ کے فیصلے کی روشنی میں ہوگا۔ یہ پہلا دھرنا ہے جو عوام کے سلگتے ہوئے مسائل کے سلسلے میں دیا گیا ہے اس دھرنے کی پشت پر کوئی سیاست نہیں بلکہ عوام کے جذبات کی ترجمانی ہے عام لوگ مہنگائی کے بوجھ تلے کراہ رہے ہیں بجلی کے بلوں کی زیادتی نے ان سے جینے کی آرزو چھین لی ہے۔ جماعت اسلامی نے جو مطالبات حکومت کے سامنے رکھے ہیں اس میں پہلا اہم مطالبہ بجلی ہی کے حوالے سے ہے کہ 500 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کو 50 فے صد رعایت دی جائے، پٹرول کی قیمتیں کم کی جائیں تنخواہ داروں پر ٹیکس کا بوجھ کم کیا جائے، اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں 20 فے صد کمی کی جائے حکومتی اخراجات میں کمی کی جائے غیر ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی کی جائے آئی پی پیز کے معاہدے پر نظر ثانی کی جائے ڈالرز میں ادائیگی کا معاہدہ ختم کیا جائے۔ یہ سارے مطالبات عوام کو ریلیف دینے کے لیے ہیں۔ حافظ نعیم نے کہا ہے کہ اگر حکومت نے معاملے کو سنجیدہ نہ لیا آئی پی پیز کو لگام نہ دی تو دھرنا آگے بڑھے گا پاکستان کے چپے چپے پر عوام امید لگائے بیٹھے ہیں ریلیف دلائے بغیر کیسے واپس جا سکتے ہیں۔ حکومت ہمیں ٹھکانے لگانا چاہتی ہے تو ہمارے پاس اور بھی پلان ہیں ہم فارم 47 والے نہیں مذاکرات سب دیکھیں گے۔ یہ بھیڑیے آئی پی پیز کے نام پر خون چوستے ہیں اور یہ دھرنا ان کے خلاف عوام میں بیداری پیدا کررہا ہے۔

دوسری طرف ملکی سیاست میں ایک اہم موڑ سامنے آرہا ہے کہ حکومت نے ایک بار پھر پی ٹی آئی کو مذاکرات کی دعوت دی ہے۔ پی ٹی آئی نے ن لیگ پر یہ الزام لگایا ہے کہ وہ پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کو آپس میں لڑوانا چاہتی ہے اور انہوں نے مذاکرات کی دعوت کو مسترد کردیا ہے۔ ایک معروف اینکر کے تجزیے کے مطابق کچھ برف پگھلتی ہوئی لگ رہی ہے موجودہ حکومت نے 9 مئی کو اپنے لیے ایک ایسا ہتھیار بنا لیا ہے جس کے ذریعے وہ پی ٹی آئی کو عدالت سے سزائیں دلوانا چاہتی ہے جبکہ عدلیہ کی طرف سے پی ٹی آئی پر مہربانیوں کا سلسلہ جاری ہے اسی طرح کے کچھ اشارات 9 مئی کے حوالے سے آئی ایس پی آر کی طرف سے بھی آئے تھے۔ دوسری طرف سابق وزیر گوہر اعجاز نے جو انکشافات کیے ہیں وہ بھی کسی کے اشارے پر، اس لیے کہ ان آئی پی پیز کے مالکان میں ن لیگ اور پی پی پی سے وابستہ لوگ زیادہ ہیں۔ ن لیگ اور پی پی پی کا اسٹیبلشمنٹ پر پی ٹی آئی کو سبق سکھانے کے حوالے سے بڑھتے ہوئے دبائو کو بیلنس کرنے کے لیے کچھ تو کرنا ضروری تھا۔

حافظ نعیم الرحمن نے دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کام نہ کرے اور ربڑ اسٹیمپ ہو تو پھر پرامن سیاسی مزاحمت ہی راستہ ہے دھرنا اور مذاکرات ساتھ ساتھ چلیں گے۔ ہم نے بنیادی مطالبات پیش کردیے ہیں بجلی کے بلوں سے اضافہ ہٹایا جائے حکومت سے ایسی گارنٹی لیں گے کہ مکر نہ سکے۔ انہوں نے کہا کہ گھر بار چھوڑ کر سڑک پر بیٹھنا کسی کی خواہش نہیں جب حکمران طبقہ ہمارے لیے سارے راستے بند کردے تو لوگ مجبوراً احتجاج کرتے ہیں۔ بجلی کے بل بم بن کر گھروں پر گررہے ہیں ایسی صورتحال میں غریب آدمی کیا کرے چوری کرے ڈاکا ڈالے یا پھر منشیات کا عادی بن کر خود کو دنیا سے الگ تھلگ کرلے یا خودکشی کرلے۔ انہوں نے مطالبات کی منظوری کے لیے ایک ہفتے کا الٹی میٹم دیتے ہوئے کراچی سمیت چاروں صوبائی دارالحکومتوں میں دھرنے کا اعلان کیا۔ پیر کے دن دوبارہ مذاکرات ہوں گے۔ جس وقت یہ تحریر پڑھ رہے ہوں گے تو مذاکرات کی کامیابی یا ناکامی دونوں سامنے آچکے ہوں گے۔