اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور کشمیر وگلگت بلتستان میں گلگت بلتستان کو پانچواں صوبہ بنانے کی تجویزپیش کردی گئی، ارکان نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان متنازعہ خطہ نہیں ہے، صوبے کا درجہ دیا جائے۔
کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی پروفیسر ساجد میر کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔ کمیٹی نے وفاقی وزیر امورکشمیر امیرمقام کی اجلاس میں عدم شرکت پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے ۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ سا بقہ قائمہ کمیٹی برائے امور و کشمیر کے ساتھ بھی یہی رویہ اختیار کیا گیا تھا ۔قائمہ کمیٹی کے آزاد جموں کشمیر کے دورے کے حوالے سے بھی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا تھا ۔
اجلاس کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے رہنما قانون دان سینیٹر حامد خان نے کہا کہ گلگت بلتستان متنازعہ خطہ نہیں ہے، اس کو آزاد کشمیر سے الگ کرنے کی ضرورت ہے، تاریخی طور پر اس علاقے کو برطانوی حکومت نے 1935میں لیز پر 50سال کیلئے دیا تھا، مہاتماگاندھی نے مہاراجہ کو 1947میں لیز کینسل کرنے پر قائل کیا ۔ہمارے بہترین مفاد میں ہے کہ اس کو پانچویں صوبے کا درجہ دیا جائے پاکستان کی نیشنل سیکیورٹی کیلئے بھی یہ بہتر ثابت ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ قومی ایشو ہے اس کو توجہ کی ضرورت ہے ۔ سیکرٹری امور کشمیر نے کہا کہ آئندہ ان امور کا خیال رکھا جائے گا۔ وزارت امور کشمیر کا بجٹ 1388.77ملین روپے ہے۔اس سال وزارت امور کشمیر کا پی ایس ڈی پی میں کوئی ترقیاتی منصوبہ نہیں ہے ۔ پی ایس ڈی پی کیلئے سو فیصد پیسہ وفاق دیتا ہے، اے ڈی پی کا بڑا حصہ بھی وفاقی حکومت کا ہے ۔مانیٹرنگ کا اختیار وزارت امور کشمیر وگلگت بلتستان کے پاس ہونا چاہیے ،گلگت بلتستان میں ٹیکسز نہیں ہیںوہاں گندم 20روپے کلو ملتی ہے۔گلگت بلتستان کے لوگوں کی ڈیمانڈ بہت زیادہ ہے این ایف سی کے تحت 240ارب کا حصہ مانگتے ہیں۔
قائمہ کمیٹی کو آزاد کشمیر کونسل اور گلگت بلتستان کے فنکشنز بارے تفصیلی آگاہ کیا گیا ۔ سینیٹر ندیم بھٹونے کہا کہ پاکستان قدرتی مناظر کی دولت سے مالا مال ہے موثر حکمت عملی کی ضرورت ہے ۔
سینیٹر ساجد میر نے کہا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں اپنے غیر قانونی تسلط اور ظلم جاری رکھنے کیلئے بہت زیادہ خرچ کرتا ہے۔ اس کو گلگت بلتستان کے لوگ دیکھتے ہیں۔ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے لوگوں کی دلجوئی کیلئے بجٹ میں زیادہ خیال رکھنا پڑتا ہے اگر ایسا نہ کیا تو وہ بھارتی زیر قبضہ کشمیر کا موازنہ کرتے ہیں۔کشمیر ایشو کو کمیٹی اپنے اختیار سے باہر نہیں سمجھتی۔قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ گلگت بلتستان میں وزارت کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے صرف تعاون کرتے ہیں۔ قائمہ کمیٹی نے گلگت بلتستان کے ڈویلپمنٹ کا علیحدہ جائزہ لینے کا فیصلہ کرتے ہوئے ہدایت کی کہ بتایا جائے گلگت بلتستان کیلئے کتنا بجیٹ طلب کیا تھا اور کتنا فراہم کیا گیا ہے ۔
قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ آزاد جمعوں کشمیر کونسل کے تمام ممبران منتخب ہو چکے ہیں اگر ان ممبران میں سے بھی کچھ ممبران کو کمیٹی اجلاس میں دعوت دی جائے تو ان کے علاقوں کے مسائل موثر طور پر اجاگر ہونگے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ گلگت بلتستان کی کل آبادی 17لاکھ کے قریب ہے جن کیلئے حکومت ان کو 140ارب روپے کا فنڈ دیتی ہے جب کہ آزاد جمعوں کشمیر کی کل آبادی 42لاکھ ہے ۔