مصنوعی ذہانت: دوسرا رُخ (حصہ دوم)

396

ذہنی صحت ہماری مجموعی صحت کا ایک اہم جزو ہے، AI ذہنی صحت کے مسائل مثلاً: ذہنی دبائو اور اضطراب کی تشخیص و علاج میں مدد کر سکتی ہے۔ AI چیٹ بوٹس کے ذریعے مریضوں کو مشورہ فراہم کر سکتی ہے اور انہیں ذہنی صحت کے ماہرین سے رابطہ کرنے میں مدد گار بن سکتی ہے۔ مصنوعی ذہانت دور دراز علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے لیے طبی امداد تک رسائی آسان بنا رہی ہے۔ یہ ٹیلی میڈیسن کے ذریعے مریضوں کو دیہاتوں اور چھوٹے شہروں میں رہتے ہوئے بھی ماہر ڈاکٹروں سے مشورہ کرنے کی سہولت فراہم کر رہی ہے، اس سے وقت اور پیسے کی بچت کے ساتھ ساتھ لوگوں کو بروقت طبی امداد مل سکتی ہے۔ AI سرجری میں بھی انقلاب برپا کر رہی ہے اور روبوٹک سرجری میں معاون ہے، جس سے سرجن کو انتہائی پیچیدہ اور کم سے کم غلطی والی سرجری کرنے میں مدد ملتی ہے، اس سے مریضوں کی صحت یابی کا عمل تیز اور زیادہ آسان ہو جاتا ہے۔

بیمار افراد کی دیکھ بھال ایک اہم چیلنج ہے، مصنوعی ذہانت بیماروں کی دیکھ بھال میں مددگار ثابت ہو رہی ہے۔ AI سینسرز کے ذریعے مریضوں کی صحت کی نگرانی کر سکتی ہے اور کسی بھی تبدیلی کی صورت میں خبردار کر سکتی ہے، اس سے بروقت طبی مداخلت ممکن ہو جاتی ہے، یہ صحت کے اخراجات کو کم کرنے میں معاون ہے۔ اس کے علاوہ یہ ڈاکٹروں کا وقت بچا سکتی ہے، اس سے زیادہ مریضوں کا علاج ممکن ہوتا ہے اور صحت کی دیکھ بھال زیادہ لوگوں کے لیے قابلِ حصول ہوتی ہے۔

تعلیم کا روشن مستقبل: مصنوعی ذہانت کا کردار:

تعلیم وہ ذریعہ ہے جو ہمیں ترقی کرنے اور اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے میں مدد دیتا ہے۔ لیکن بدلتے ہوئے دور میں، روایتی تعلیمی نظام کو محدودیت کا سامنا ہے۔ کلاسوں کا بڑا سائز، انفرادی توجہ کی کمی اور سیکھنے کے یکساں طریقے طلبہ کی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ خوش قسمتی سے AI نے تعلیم کے شعبے میں امید کی ایک نئی شمع جلائی ہے۔ یہ ہمیں ایک زیادہ موثر، شخصی نوعیت کا اور سیکھنے کا دلچسپ تجربہ فراہم کرنے میں مددگار ثابت ہو رہی ہے۔ ہر طالب علم منفرد ہے اور اس کا سیکھنے کا انداز بھی منفرد ہو سکتا ہے۔ AI ہر طالب علم کے لیے سیکھنے کا انفرادی ماحول تشکیل دے سکتی ہے۔ یہ طالب علم کی رفتار، کمزوریوں اور طاقتوں کا تجزیہ کرکے ان کے لیے سیکھنے کا ایسا منصوبہ تیار کر سکتی ہے جو اُس کے انفرادی تقاضوں کے مطابق ہو، اس سے ہر طالب علم اپنی رفتار سے سیکھ سکتا ہے اور زیادہ موثر انداز میں مضامین کو سمجھ سکتا ہے۔ AI کلاس روم کی بوریت کو دور کر کے تعلیم کو دلچسپ اور پرکشش بنانے میں مددگار ثابت ہو رہی ہے، یہ گیمز، عکسی تصاویر اور انٹرایکٹو سرگرمیوں کے ذریعے طلبہ کو سیکھنے میں مصروف رکھتی ہے، وہ سیکھنے کے عمل سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور معلومات کو بہتر طور پر یاد رکھتے ہیں۔

روایتی تعلیمی نظام میں سیکھنے کا عمل کلاس روم تک ہی محدود رہتا ہے، لیکن AI سیکھنے کا ایک کل وقتی عمل ہے۔ AI ایپس اور آن لائن پلیٹ فارمز کے ذریعے طلبہ کسی بھی وقت، کہیں سے بھی سیکھ سکتے ہیں، یہ ان طلبہ کے لیے خاص طور پر مفید ہے جو اسکول کے بعد مزید پریکٹس کرنا چاہتے ہیں یا کسی خاص موضوع کو دوبارہ سمجھنا چاہتے ہیں۔ AI طلبہ کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی مدد کا بھی ایک ذریعہ ہے، یہ اساتذہ کے لیے طلبہ کی کارکردگی کا تجزیہ کرنے، ان کی کمزوریوں کی نشاندہی کرنے اور ان کی مدد کے لیے مناسب تدابیر اختیار کرنے میں معاون ہے، اس سے اساتذہ اپنا قیمتی وقت انفرادی توجہ اور رہنمائی فراہم کرنے میں لگا سکتے ہیں۔

دنیا مسلسل ترقی کر رہی ہے اور نئی چیزیں سیکھنا ضروری ہے۔ مصنوعی ذہانت نئے سیکھنے کے مواقع پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہو رہی ہے، یہ آن لائن نصابوں اور ورکشاپس کے ذریعے لوگوں کی صلاحیت بڑھانے اور پیشہ ورانہ زندگی میں ترقی کا موقع فراہم کر تی ہے، اس سے علم تک رسائی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، کیونکہ AI دور دراز علاقوں میں رہنے والے طلبہ کو بھی سیکھنے کے مواقع فراہم کر تی ہے۔ تاہم اس کا ذمہ داری سے استعمال ضروری ہے اور یہ بھی کہ یہ ٹیکنالوجی اساتذہ کی جگہ نہ لے، بلکہ ان کی مددگار ثابت ہو۔ اس کے علاوہ، ڈیجیٹل تقسیم (digital divide) کو کم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہر طالب علم کو AI کی سہولت سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل سکے۔ مجموعی طور پر AI تعلیم کے مستقبل کو روشن بنا رہی ہے اور ہمیں ایک ایسا تعلیمی نظام فراہم کر رہی ہے جو ہر طالب علم کی صلاحیتوں کو نکھارنے میں معاون ہے۔ یہ نئی ٹیکنالوجی مستقبل کی نسل کو علم اور ہنر سے آراستہ کرنے اور ایک بہتر دنیا کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرے گی۔

خلاصۂ کلام یہ کہ مصنوعی ذہانت خیر ہے، مگر خیرِ کُل نہیں ہے، جہاں اس کے بے شمار فوائد ہیں، وہاں اس کے ممکنہ مفاسد بھی کم نہیں ہیں۔ الغرض یہ دو دھاری تلوار ہے، یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر محمد معظم فراز سیفی نے دینی، تہذیبی اور اخلاقی پہلوئوں کی اہمیت پر زور دیا ہے، ظاہر ہے: یہ کام مصنوعی ذہانت کے روبوٹ یا مشینیں نہیں کریں گی، بلکہ یہ اُن انسانوں کی ذمے داری ہے جو اس ٹیکنالوجی کو استعمال کریں گے۔ آج امریکا سمیت تمام حکومتوں کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر اگر کوئی تحدید وتوازن کا نظام قائم کرنا ہو تو کیسے کیا جائے گا، کیونکہ انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور موبائل انسانوں کی زندگی کا لازمی حصہ بنتے جارہے ہیں اور ان کی زَد سے بچنا آسان نہیں ہے۔ اگر حکومت پابندی لگاتی ہے تو اظہارِ رائے اور پریس کی آزادی کی ’’تقدیس‘‘ کے نام پر اتنا واویلا مچایا جاتا ہے کہ حکومتیں اس کے آگے ٹھیر نہیں سکتیں، نیز عدالتیں بھی فیشن کے طور پر لبرل ہوچکی ہیں۔ جج صاحبان ایسے مقبولِ عام فیصلے کرنے لگے ہیں جو سوشل میڈیا اور ٹی وی اسکرینوں کی زینت بنیں، اُن کی ریٹنگ سوشل میڈیا پر ہونے لگی ہے، ایسی فضا میں ملک وملت کا عظیم تر مفاد، آئین وقانون کی بالادستی، ملکی وحدت وسلامتی اور دینی واخلاقی اقدار کی حیثیت ثانوی رہ جاتی ہے۔

ڈاکٹر صاحب کی اس بات سے ہمیں اتفاق ہے: اعلیٰ ماہرین کے لیے تو AI کی آمد سے یقینا مواقع پیدا ہوں گے، لیکن جب سب یا اکثر کام روبوٹ اور مشینیں کریں گی تو بڑے پیمانے پر لوگ بے روزگار ہوں گے، یہ نوشتۂ دیوار ہے اور 20 جولائی کے کالم میں بے روزگاری کے اسی سیلاب کے مابعد اثرات پر گفتگو ہوئی تھی، اس کے نتیجے میں جو مسائل پیدا ہوں گے، اُن کی اہمیت بھی کم نہیں ہے۔

سنا ہے: حکومت اور اداروں نے سوشل میڈیا پر تحدید وتوازن کے لیے چین سے ’’Firewall‘‘ ٹیکنالوجی کے حصول کا فیصلہ کیا ہے، بعض وی لاگرز نے بتایا: بس چند دن کی بات ہے، سب کا ناطقہ بند ہوجائے گا۔ لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ سوشل میڈیا سے جو شعلے بلند ہورہے ہیں، ان کا ازالہ کیسے کیا جائے گا، کیا کروڑوں لوگوں کی پوسٹوں کے ردّو قبول کا فیصلہ مشینیں کریں گی، ہم چونکہ نان ٹیکنیکل لوگ ہیں، اس لیے ہمیں اس کا علم نہیں ہے۔

حکمرانوںکے لیے تو پریشانی کی بات یہ ہے کہ مقتدر اداروں اور شخصیتوں کی اہانت کا سلسلہ بند ہو، ہمارے لیے پریشانی کی بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر اللہ تبارک وتعالیٰ، رسالت مآبؐ، قرآنِ کریم اور دینی مقدّسات کی حرمتوں کی پامالی برملا ہورہی ہے، اس کی کسی کو پروا نہیں ہے۔ جنرل یا جج کی توہین ہوجائے تو تہلکہ مچ جائے گا، جج کے پاس توہینِ عدالت کا خنجر ہر وقت تابدار رہتا ہے، لیکن ان دینی مقدسات کی حرمتوں کی حکومت، پارلیمنٹ، مقتدرہ اور عدلیہ کو کوئی پروا نہیں ہے۔ اس ملک میں توہینِ عدالت تواز خود لگ سکتی ہے، بلکہ پیشگی وارننگ دے دی جاتی ہے، لیکن دینی مقدسات کی توہین پر کبھی ازخود نوٹس نہیں لیا گیا۔

مسئلہ یہ ہے: سائنس اور ٹیکنالوجی کی باگ ڈور سرمایہ دار کے پاس ہے، وہی سائنس دانوں کے جوہرِ قابل کا خریدار، استعمال کنندہ اور فروخت کنندہ ہے۔ جدید سائنسی تحقیقات پر اربوں ڈالر خرچ کرتا ہے، اُسے اپنا برانڈ بناکر رجسٹرڈ کرتا ہے اور پھر من پسند قیمت وصول کرتا ہے، یہ استحصال کا ایک مہذب طریقہ ہے۔ سرمایہ دار کا دینی، تہذیبی، اخلاقی اور سماجی اقدار سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا، سرمائے کی سرشت میں استحصال، خود غرضی اور سنگدلی ہے، یہ ہم عمومی بات کر رہے ہیں، مستثنیات ہر جگہ ہوتی ہیں۔