کراچی (رپورٹ: منیر عقیل انصاری) آئی ایم ایف معاہدے سے معیشت مزید تباہ ہوگی‘ بہتری کی امید نہیں‘ ہر قرض پر نئی شرائط آجاتی ہیں‘ 170 ارب کا ٹیکس عوام پر منتقل کیا جا چکا، ریلیف کچھ نہیں ملا‘ امداد اور قرضوں سے ملک نہیںچلتے ‘ ڈالرکی قدر بڑھنے سے لوگوں کی آمدنی کم ہوئی‘ یوٹیلیٹی بلز کی ادائیگی مشکل ہوگئی ‘ مزید ساڑھے 4 ملین افراد خط غربت سے نیچے چلے گئے‘ آئی ایم ایف کی وجہ سے ارجنٹائن، مصربھی پاکستان کی طرح معاشی بدحالی کا شکار ہیں۔ان خیالا ت کا اظہار اپلائیڈ اکنامکس ریسرچ سینٹر، یونیورسٹی آف کراچی میں اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے فرائض انجام دینے والے ڈاکٹر عماد علی‘ معروف کالم نویس وقاص بیگ مرزا‘ کریکٹر ایجوکیشن فائونڈیشن پاکستان کے ایمبیسڈر، پاکستان ترکی بزنس فورم کے بانی و صدر، ماہر معاشیات محمد فاروق افضل اور ڈاکٹر ابو بکر نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد پاکستان کی معیشت بہتر ہوجائے گی؟‘‘ ڈاکٹر عماد علی نے کہا کہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرط پر لگائے گئے نئے ٹیکسوں سے ہونے والی مہنگائی سے مڈل کلاس ختم ہو رہی ہے‘ وطن عزیز کی اکانومی ایک عرصے سے مشکلات کا شکار چلی آرہی ہے‘ قرضوں کا بوجھ مسلسل بڑھتا چلا جا رہا ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ایک قرضے کی قسط ادا کرنے کے لیے دوسرا قرضہ اٹھایا جا رہا ہے‘ ہر نئے قرضے کے ساتھ قرض دینے والوں کی جانب سے شرائط کی نئی فہرست بھی آجاتی ہے‘ اس فہرست پر عملدرآمد کا سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا جاتا ہے‘ ہمارے ہاں یہ روایت بھی چلی آرہی ہے کہ حکومت کی جانب سے ہر نیا ٹیکس اسی روز پیداواری شعبے کی جانب سے صارفین کو منتقل ہو جاتا ہے جب کہ حکومت کی جانب سے ملنے والی مراعات اور سہولیات کی صورت میں عام صارف کو کوئی ریلیف نہیں دیا جاتا ہے‘ عالمی مالیاتی ادارے کی شرائط کی مثال کچھ اس طرح سے ہے کہ جیسے کوئی ڈاکٹر ہر مریض کا علاج پیناڈول سے کرنے کی کوشش کرتا ہو‘ اسی طرح آئی ایم ایف بھی ہر ملک سے معاشی اصلاحات کے نام پر اسی طرح کے مطالبات کرتا نظر آتا ہے۔ مثلاً ارجنٹائن اور مصر جو پاکستان کی طرح متعدد بار آئی ایم ایف سے قرضے لے چکے ہیں، ان سے بھی آئی ایم ایف کے یہی مطالبات رہے ہیں‘ پاکستان کی طرح ان ممالک نے بھی عالمی مالیاتی ادارے کی اصلاحات کو اپنایا اور ان کے نتائج بھی پاکستان سے مختلف نہیں ہیں اور دونوں ملک معاشی بدحالی کا شکار ہیں‘ موجودہ معاشی صورتحال پر بات کی جائے تو اس وقت ملکی جی ڈی پی گروتھ منفی کی طرف جا رہی ہے‘ 0.3 فیصد گروتھ کے ساتھ جون ختم ہوا ہے‘ شرح سود 19.5 فیصد پر ہے‘ کوئی بھی ملک میں سرمایہ کاری کے لیے تیار نہیں بلکہ سرمایہ دار ملک سے ڈالر خرید کر باہر جا رہے ہیں‘ مہنگائی40 فیصد کے قریب ہے‘ ایک روپے کے بدلے40 پیسے سے بھی کم کی اشیا مل رہی ہیں‘ ڈیمانڈ اور سپلائی کے مسائل بھی ہیں‘ ہماری زمین کم اناج پیدا کر رہی ہے‘ ہماری انڈسٹری 3 فیصد کی گروتھ پر ہے خصوصاً فارماسیوٹیکلز، کار، موٹر سائیکل، ٹرک بنانے کی صنعتیں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں‘ اس وقت 12 ملین سے زاید افراد بے روزگار ہیں‘ لوئر مڈل کلاس غربت کی لکیر سے نیچے جا رہی ہے‘ مزید ساڑھے 4 ملین افراد خط غربت سے نیچے چلے گئے ہیں‘ ڈیڑھ ملین کے قریب افراد شدید غربت کی لکیر سے بھی نیچے چلے گئے ہیں اور اب وہ چوری، ڈکیتی و دیگر معاشرتی جرائم و برائیوں کی طرف راغب ہو رہے ہیں‘ دہشت گردی بھی دوبارہ سر اٹھا رہی ہے جس ملک میں غربت، بے روزگاری، مہنگائی ہو، وہاں حکومت کو عوام کی مدد کرنی چاہیے‘ وفاقی و صوبائی حکومتوں کا سائز کم نہیں کیا جا رہا، مقامی وسائل سے مکمل فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا‘ گڈ گورننس پر توجہ نہیں دی جا رہی بلکہ بیرونی امداد اور قرضوں سے ملک چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے جس سے نقصان ہو رہا ہے‘ حکومت کے لگائے گئے نئے ٹیکس، لیویز، پیٹرول، بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافے سے کھانے پینے کی اشیا مزید مہنگی ہو گئیں جس سے مہنگائی50 فیصد سے بھی بڑھ گئی ہے ‘ اگر ہم ملک کو درست سمت پر گامزن کرنا چاہتے ہیں تو کم از کم نظام انصاف اور معیشت میں اداراہ جاتی اصلاحات متعارف کرانا ہوں گی‘ وسائل پر اشرافیہ کا قبضہ ختم کرنا ہوگا اور اپنے تعلیم یافتہ طبقے، آئی ٹی اور پانی کو ایکسپورٹ ایبل بنانا ہوگا‘ اس کے ساتھ ویلیو ایڈڈ اشیا بنانا ہوں گی جن کی دنیا میں ڈیمانڈ ہو‘ ہمیں خود انحصاری کی پالیسی اپنانا ہوگی۔وقاص بیگ مرزا نے کہا کہ پاکستان کی 25 کروڑ آبادی کو حالیہ برسوں میں انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) معاہدے کے بعد معاشی چیلنجز کا سامنا ہے‘ قوم شدید معاشی بحران سے دوچار ہے جس کی وجوہات ذخائر کی کمی اور قرضوں کا بھاری بوجھ ہے‘ ملک اس وقت بڑھتی ہوئی مہنگائی، مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان سیاسی لڑائی اور دہشت گردی میں اضافے جیسے چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے‘ پاکستان کے بڑے بیرونی قرضوں کی ذمہ داریوں کے ساتھ ان عوامل نے بھی قوم کو ڈیفالٹ کے خطرے میں ڈال دیا ہے۔ مزید برآں کرنسی کی قدر میں کمی کے نتیجے میں ملک میں مہنگائی کی شرح بلند ترین سطح پر پہنچی ہے جس کی وجہ سے غربت میں اضافہ ہوا ہے جس سے انسانی ترقی متاثر ہوئی ہے جو کہ ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس ( ایچ ڈی آئی) کی موجودہ درجہ بندی میں161 ویں نمبر پر ہے‘ موجودہ معاشی بحران نے پاکستان کو 185 ممالک میں سے 161 ویں نمبر پر پہنچا دیا ہے اور یہ دنیا کے ان 25 ممالک میں شامل ہے جہاں انسانی ترقی سب سے کم ہے‘ اس سے غربت میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے آمدنی میں کمی ہے‘ ان تمام عوامل نے امیر اور غریب کے درمیان خلیج کو بڑھا دیا ہے‘ بڑھتے ہوئے مالی دبائو کی وجہ سے لوگوں کی صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم تک رسائی کم ہو گئی ہے، جو انسانی ترقی کے زوال میں معاون ہے‘ موجودہ بحران پر قابو پانے کے لیے مختصر اور طویل مدتی اقدامات کی اشد ضرورت ہے‘ پاکستان کو گھریلو صنعتوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ ایسی چیزیں تیار کریں جو اس وقت درآمد کی جا رہی ہیں‘اس سے مقامی پیداوار کو بڑھایا جا سکتا ہے‘ غیر ضروری غیر ملکی درآمدات کو محدود کرنے سے غیر ملکی کرنسی کی طلب میں کمی آ سکتی ہے‘ شہریوں کی صحت، تعلیم اور ہنر کی ترقی کو ترجیح دے کر انسانی ترقی کی سطح کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔محمد فاروق افضل نے کہا کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد عام آدمی کو زندگی گزارنا بہت مشکل ہوگیا ہے‘ ٹیکس کا سارا بوجھ غریب عوام پر ڈالا جا رہا ہے‘ یہ بات تو طے ہے کہ اگر آج بھی ہم نے اپنا قبلہ درست نہ کیا تو ایک وقت ایسا آئے گا جب ہم سب کا اعتبار کھو دیں گے اور کوئی شاید مدد کا ہاتھ بھی نہ بڑھائے‘ اپنی حالت بدلنے کے لیے محنت ہر حال میں خود ہی کرنا ہو گی‘ کسی دوسرے کا کندھا محدود مدت تک ہی استعمال کیا جا سکتا ہے‘ بنیادی طور پر کوئی بھی ملک آئی ایم ایف کے پاس اپنے مالی خسارے کو پورا کرنے کے لیے یا حکومتی اخراجات کے لیے نہیں جاتا بلکہ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب کسی ملک کے پاس بیرونی ادائیگی کے لیے ڈالر نہ ہوں اور اس کو کسی دوسرے ملک سے قرضہ نہیں مل سکتا ہو‘ قرضے اور امداد کے بغیر ڈالر کے حصول کا واحد ذریعہ برآمدات ہیں ‘ حکومت برآمدات کے فروغ کی پالیسی پر کام کر رہی ہے لیکن اس کے باوجود ڈالر کی طلب و رسد کا فرق بڑھتا جا رہا ہے‘ ہماری برآمدات کی شرحِ نمو کم ہیں جبکہ درآمدات کی شرح زیادہ ہے جس کی وجہ سے ملک کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا شکار رہتا ہے‘ حکومت برآمدات کے فروغ کے ساتھ ساتھ درآمدات کی متبادل پالیسی پر توجہ دے‘ صنعتوں میں درآمد شدہ خام مال کے استعمال کو کم کیا جائے‘ سستی بجلی و گیس کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے‘ سیاسی استحکام پیدا کیا جائے‘ حکومتی سطح پر درآمد شدہ اشیا کے استعمال پر پابندی عاید کی جائے‘ مالی اور مالیاتی پالیسی آئی ایم ایف کی مرضی کے بجائے آزادانہ طور پر ملکی معاشی حالات کے مطابق بنائی جائے ۔ڈاکٹر ابو بکر نے کہا کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد170 ارب روپے کا ٹیکس فوراً عام صارف کو منتقل ہو چکا ہے‘ عام صارف پہلے ہی گرانی کے ساتھ ذخیرہ اندوزی اور ملاوٹ کے ہاتھوں اذیت کا شکار ہے‘ اگر ادویات بھی مہنگی ہوجائیں تو یہ عوام کے لیے زیادہ مشکلات کا باعث بنتی ہیں‘ حکومتوں کی جانب سے تواتر کے ساتھ ہیلتھ سیکٹر میں اصلاح احوال کے اعلانات اور اقدامات کے باوجود عام شہری سرکاری اسپتال کی خدمات سے نالاں ہے‘ شہریوں کو مجبوری میں نجی شعبے کے اداروں سے رجوع کرنا پڑتا ہے جہاں کے چارجز بھی ہر قاعدہ قانون سے آزاد ہیں‘ جعلی اور2 نمبر ادویات بھی علاج میں بڑی رکاوٹ ہیں‘ عوام کو مصنوعی مہنگائی سے بچانے کی ضرورت ہے‘ اس کے لیے چیک اینڈ بیلنس کا محفوظ نظام ضروری ہے جو مسلسل کام کرتا رہے‘ ایک عام شہری آئی ایم ایف کی شرائط کو پڑھ کر اس بات کا بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ بجلی اور گیس کے نرخوں میں مزید اضافہ متوقع ہے جس سے نہ صرف گھریلو صارفین کے بجٹ کا بڑا حصہ بلوں کی ادائیگی میں خرچ ہوگا بلکہ یہ پیداواری لاگت میں بھی اضافے کا باعث بنے گا جس سے مزید مہنگائی ہوگی۔ عالمی کساد بازاری 1936ء اور دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کے حل کے لیے1944ء میں عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی بنیاد ڈالی گئی۔ اس کے قیام کے بنیادی مقاصد میں جن باتوں کو مدنظر رکھا گیا تھا ان میں عالمی مالیاتی نظام کا قیام و تحفظ، بین الاقوامی تجارت کا فروغ اور اس کے ذریعے ممالک کی آمدنی اور روزگار میں اضافہ کرنا، تبادلے کی شرح کو مستحکم رکھنا اور ممبر ممالک کو بین الاقوامی ادائیگیوں کے خسارے کی صورت میں قرضے کی فراہمی شامل ہیں۔
جسارت سے گفتگو