حرکت میں برکت ہے، کے کلیہ کے حامل حافظ نعیم الرحمن امیر جماعت اسلامی پاکستان نے اسلام آباد دارالحکومت میں 26 جولائی کو بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ظالمانہ روز بروز اضافے کے خلاف دھرنے کی کال دی اور پورے پاکستان سے ستائے ہوئے انسانوں کو دھرنے کے سائے تلے آنے کی دعوت دی تو پھر ہلکے اور بوجھل سعید روحوں کے حامل سب کچھ مال و متاع چھوڑ کر نکل کھڑے ہوئے، چشم فلک نے دیکھا کہ شرکا میں معصوم بچے جن کی دعائیں اور بوڑھے جن کی شب و روز کی ریاضتیں اللہ رحیم و کریم رد نہیں کرتا وہ اسلام آباد میں جماعت اسلامی کی پکار پر موجود ہوئے نہ اُن کے آڑے گرمی آئی، نہ سیم و زر نے ان کے قدموں میں بیڑیاں ڈالیں، نہ حکمران وقت کا خوف اُن کو دامن گیر ہوا۔ حکمران وقت نے وقت کے اس دھارے کو روکنے کے لیے اور پارلیمنٹ کے سامنے ڈی چوک کو اس سیل رواں سے محفوظ رکھنے کے لیے راستہ روکنے کے ہتھکنڈے استعمال کیے جو جذبہ ایمانی کے کارواں کے سامنے مکڑی کے جالے ہی ثابت ہوئے۔ امن کے سپاہی قانون سے کھلواڑ سے پاک جماعت اسلامی کے قائدین نے عوام الناس کی سہولت خاطر ڈی چوک کی راہداری کو حکومت کی اپیل پر چھوڑ کر لیاقت باغ کو مرکز دھرنا بنالیا۔
لیاقت باغ جو خونچکاں تاریخ کا حامل ہے، لیاقت علی کی شہادت سے لے کر بے نظیر بھٹو کی شہادت تک کہ واقعات کا امین اور روز محشر کا گواہ ہے، پر یہ دھرنا اس عزم کے ساتھ منتقل کردیا کہ ہم فساد نہیں اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں اور آخری سانس تک یہ جدوجہد جاری رہے گی، دھرنا احتجاج کی آخری حد ہوتا ہے۔ عربوں میں قدیم زمانہ میں یہ رواج تھا کہ ’’مظلوم‘‘ جب کسی بااثر کے ظلم و ستم کا حد سے بڑھ کر شکار ہوتا تو وہ اپنی بستی کے کنارے پر خیمہ لگا کر سراپا احتجاج ہوتا، بستی میں داخل ہونے رہ گزر اور بستی کہ لوگ اس کی طرف لپکتے حال احوال کرتے اور ظالم کا حقہ پانی بند کرکے اُس کو مجبور کرتے کہ وہ مظلوم کی حق تلفی کا فوری ازالہ کرے اور یوں یہ معاشرتی دبائو ظلم و ستم کو بے قابو نہیں ہونے دیتا تھا۔ یہ معاشرتی دبائو، داد رسی اور ظلم و ستم کو رسّی ڈالنے کا نایاب نسخہ رہا لوگ کچھ کہہ دیتے ہیں کہ یہ پرانے دور کی باتیں ہیں اب تو حکمرانوں کی گھاتیں اور وارداتیں ہیں جو بے قابو ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے امیر جماعت اسلامی پاکستان مرحوم قاضی حسین احمد کے دھرنے نے حکومت وقت کی چولیں ہلا دی تھیں یہ زیادہ دیر کی بات نہیں تو معترض مولانا فضل الرحمن اور ڈاکٹر طاہر القادری کے بے نتیجہ دھرنے کی مثال جواب میں دیتے ہیں تو جناب والا ہر کام میں نیت کا بڑا دخل ہے۔ کرائے کا دھرنا، کھیل ختم پیسہ ہضم والا ہی ہوتا ہے، کوئی دھرنا خرچہ پانی کا تھا تو کوئی ونگار مقتدرہ کا تھا سو پھر تماشا اہل کرم نے یہ دیکھا کہ میاں بھائی کس کے کھاپی کے کھسکے کا معاملہ ہونا تھا۔ جماعت اسلامی کے رہنما، کارکن مظلوموں، مقہوروں کی حمایت خاطر اللہ کی رضا کے طالب پن کر اپنے خرچ پر سب کچھ چھوڑ کر میدان میں اُترے ہیں، ربّ کی نصرت ان کی دامن گیر اِن شاء اللہ ضرور ہوگی، تبدیلی آئے گی، سکھ چین لائے گی، مہنگائی کے حبس میں بہار کا جھونکا آئے گا، اللہ کسی کی محنت کو رائیگاں نہیں جانے دیتا ہے، یہ فرمان خدا ہے اس کا وعدہ بھی ہے ویسے بھی 26 کا عدد 8 کا کہلاتا ہے علم اعداد کے حوالے سے یہ تخت یا تختہ کا عدد ہے۔ سود و زیاں کرتا ہے۔ یہ تبدیلی لاتا ہے، سو حکمرانوں بدل جائو ورنہ تمہاری داستان بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔ بس بہت ہوگئی لوٹ کھسوٹ سے بہت ٹھاٹھ کر لیے وقت حساب قریب ہے، دھرنا دھڑن تختہ کردے گا اگر تم نے روش نہ بدلی، مظلوموں کی آہیں پاکیزہ لوگوں کی بددعائیں تمہارے تعاقب میں ہیں۔