وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ آج بھی دعوت دیتا ہوں کہ آئیں مذاکرات کریں، جو بات کرنا چاہتا ہے حکومت پاکستان مذاکرات کے لیے تیار ہے، کسی کو قتل وغارت کی اجازت نہیں دے سکتے۔
سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ ہم کسی صورت ظالم کے ساتھ نہیں، مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوں گے، ایف سی کے 16 جوان زخمی ہیں، ایک جوان کی آنکھ ضائع ہوچکی ہے۔ ایک مخصوص ٹولا ریاست اور عوام کے درمیان فاصلہ پیدا کرنا چاہتا ہے، ہم کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیں گے۔یہ باتیں انہوں نے بلوچستان اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ضروری ہے کہ تاریخ کو درست کیا جائے، جب پاکستان اور بھارت بنائے گئے تو ان ممالک میں موجود ریاستوں کو اختیار دیا گیا کہ وہ جس ملک کے ساتھ چاہیں، الحاق کریں۔ جس برطانوی ایکٹ کے تحت بر صغیر کی تقسیم ہوئی اس میں لکھا ہوا ہے کہ ریاستوں کو آزاد حیثیت برقرار رکھنے کا اختیار نہیں دیا گیا، انہیں کہا گیا کہ وہ انڈیا کے ساتھ شامل ہوں یا پاکستان کے شامل ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ قلات کس طرح سے ملک میں شامل ہوا ، اس کا حوالہ خان آف قلات نے اپنی کتاب میں دیا، جس معاہدے کی بات کی جا رہی ہے، 1973 کے آئین کے بعد کسی قسم کا پرانا معاہدہ برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔ خان آف قلات نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ وہ کیسے پاکستان میں شامل ہوئے، خان آف قلات یہاں آکر فیڈریشن کے نمائندے بنے اور گورنر رہے۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ماہ رنگ بلوچ کے ساتھ ہمارا تحریری معاہدہ ہوا ہے، تحریری معاہدہ ہے کہ جب دھرنادیں گے، اجازت لی جائے گی۔ جب بلوچ یکجہتی کمیٹی نے ہماری بتائی گئی جگہ پر جلسہ کرنا ہی نہیں تو پھر اجازت کسی چیز کی مانگی تھی؟ یہ پر امن لوگ ایف سی پر فائرنگ کیسے کرلیتے ہیں؟ یہ کیسے پرامن ہیں۔ میں آج بھی دعوت دیتا ہوں کہ آئیں مذاکرات کریں، جو بات کرنا چاہتا ہے پاکستان کی حکومت مذاکرات کے لیے تیار ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا جتھوں کو اجازت دی جائے کہ یہ حکومت چلانا شروع کردیں؟ اپنے لوگوں پر سختی کرنے سے ہمیں کونسی نیک نامی ملتی ہے؟ یہ میڈیا پر کچھ بیان دیتے ہیں اور ہم سے کچھ اور بات کرتے ہیں، ہم نے بی بی شہید کے بدلے میں بھی یہی کہاکہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔