سندھ لیبر کوڈ اور پنجاب لیبر کوڈ کے مسودات ILO کی چھتری کے نیچے ان لوگوں کے تعاون اور مشاورت سے تیار کیے گئے جو گزشتہ دہائیوں سے آئی ایل او کے ساتھ ایسوسی ایٹ ہیں اور اپنے علاوہ کسی ٹریڈ یونین یا ان کی فیڈریشن کو ILO کے قریب نہیں آنے دیتے۔ پاکستان کے حقیقی مزدور نمائندوں اور لیڈرز کو ILO سے دور رکھنے کے لیے انتہائی زہریلا ،جھوٹا مگر شوگر کوٹیٹڈ پروپیگنڈا کا ہتھیار استعمال کرتے ہیں ان کی اصل نظرآئی ایل او کی طرف سے مختلف پروگرامات پر رہی بہت بڑی تعداد میں فنڈنگ انہی لوگوں کو کی گئی جو کسی بھی جگہ مزدوروں کے کام نہیں آئی مجھے نہیں معلوم کہ آئی ایل او نے اس پر اپنی آنکھیں کیوں بند کر رکھی ہیں اور وہ اس دھوکے اور فریب میں کیوں مبتلا ہے۔ یہی صورتحال ہمارے حکومتی اداروں کی بھی ہے لیکن ان کی تو سمجھ آتی ہے کیونکہ ہمارا نظام تو کچھ ’’شفاف‘‘ ہی زیادہ ہے خود ILO اور ہمارے حکومتی اداروں کو بھی اس پر سوچنے اور جائزہ لینے کی ضرورت ہے شاید کہ کچھ اصلاح ہو جائے۔ سندھ، پنجاب لیبر کوڈز کے ان مسودات کے ذریعے مزدوروں کو ان کے بنیادی قانونی حقوق و مراعات سے محروم کرنے کی سازش کی گئی تھی اور جب ان کے خلاف مزدور تحریک کا سخت رد عمل آیا اور کم از کم اس ایک نکتے پر تمام فیڈریشنزٹریڈ یونینز مزدور تحریک جمع ہو گئیں تو ان موصوف نے جنہوں نے اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کے لیے ہمیشہ عالمی اداروں کو استعمال کیا، ان کی نظر ہمیشہ عالمی فنڈنگ پر رہی اور اس کے ذریعے ذاتی اور گروہی مفادات حاصل کیے اور پاکستان کے مزدوروں کو محروم رکھا گیا مزدوروں کوئی فائدہ نہیں پہنچا بلکہ یہی مفاد پرست گروہ راستے میں ہی ہر چیز کو اپنے ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھاتا رہا۔
اب جب کہ ان کی پاکستان میں نمائندہ حیثیت عالمی سطح پر بھی بری طرح ایکسپوز ہو گئی اور معلوم ہو گیا کہ وہ جعل سازی سے ایک فیڈریشن کا نام استعمال کر کے مفادات حاصل کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے مزید جعل سازی کرتے ہوئے اسی فیڈریشن کا نام استعمال کر کے لاہور میں آئی ایل او کی چھتری کے نیچے مختلف ٹریڈ یونینوں کو اکٹھا کرنے کی ناکام کوشش کی اور اس میں نیا جال بچھا کر مختلف فیڈریشنوں کو ضم کر کے خود اس کا عہدے دار بننے کی منصوبہ بندی کی ان صاحب کا تو یہی ماضی ہے ماضی میں بھی وہ کسی ٹریڈ یونین جدوجہد کے نتیجے میں ٹریڈ یونین لیڈرشپ پر نہیں آئے اسی طرح کی سازشوں اور شب خون مار کر مختلف ٹریڈ یونین کو دھوکے سے اکٹھا کر کے اپنا الو سیدھا کرتے رہے لیکن مجھے حیرت اور دکھ اس بات کا ہے ILOنے اس مقامی ٹریڈ یونینز کی سیاست میں اپنا کندھا کیوں پیش کیا۔ ILO کو اپنے اس کردار پر سوچنا بھی چاہیے اور جائزہ بھی لینا چاہیے کہ وہ پاکستان کی تمام حقیقی ٹریڈ یونینز کو نظر انداز کر کے صرف ایک ایسے فرد کی سرپرستی کیوں کر رہے ہیں کہ جس کا خود ٹریڈ یونین سے کوئی تعلق نہیں ہے اور جس فرد کی وجہ سے آئی ایل او کے تمام مثبت پروگرامز کا پھل پاکستان کے مزدوروں تک نہیں پہنچ رہا اور خاص طور پر ILO کو اس پہلو پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ وہ تو ایک عرصے سے باوقار روزگار کے نام پر کام کر رہے تھے کہ ایسا کیا ہوا کہ سندھ لیبر کوڈ اور پنجاب لیبر کوڈ کے نام پر ایسے مزدور کش قوانین ان کے ذریعے متعارف کرائے گئے کہ جن کے ذریعے مزدوروں کوپہلے سے موجود قانونی حقوق اور مراعات سے محروم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ٹریڈ یونینز پر قدغنیں ٹریڈ یونینز دائرہ محدود، ٹھیکیداری نظام کو قانونی تحفظ دینے کی بھونڈی کوشش کی گئی اس سے خود آئی ایل او کی ساکھ متاثر ہوئی اور انہی لوگوں نے ILO کو بھی اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا۔ میں پاکستان کی سب سے بڑی نمائندہ فیڈریشن کی نمائندگی کرتے ہوئے پوری مزدور تحریک کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ ہوشیار ہو جائیں اور پرانے مداری کے نئے جال میں پھنس کر مزدور تحریک کی رہی سہی کسر بھی نہ نکال دیں اور پنجاب لیبر کوڈ اور سندھ لیبر کوڈ پر حقیقی مزدور تحریک کے درمیان جو اتحاد کی فضا پیدا ہوئی ہے جس سے مزدور تحریک کو نئی زندگی ملنے کا امکانات روشن ہوئے کسی طالع آزما کے جال میں پھنس کر ان امکانات کو ضائع نہ کر بیٹھیں اور جو سادہ لوح لیبر لیڈر اس فیڈریشنوں کے ضم ڈرامہ میں شریک ہوئے ہیں انہیں بھی نظر ثانی کرنی چاہیے اور صیاد کے دام فریب سے خود کو بھی اور مزدور تحریک کو بھی بچانا چاہیے۔ میں یہ بات خاص طور پر ان نظریاتی لوگوں سے کرنا چاہتا ہوں کہ جو مزدور کے لیے کچھ کر گزرنے کی تمنا بھی رکھتے ہیں اور تاریخ بھی وہ خود کو اس ڈھونگ اور ڈرامے سے بچائیں کیوں کہ نظریاتی لوگ ہی ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر سوچ سکتے ہیں۔ میری اس تحریر کو تمام مزدوروں بالخصوص مزدور رہنماؤں تک پہنچایا جائے تاکہ ہم مل کر متحد ہوکر مزدور اتحاد اور مزدور تحریک کو بچانے کے اس نادر موقع کو ضائع ہونے سے بچائیں ۔