قاضی سراج کو آج ہم سے بچھڑے ایک سال کا عرصہ ہوا چاہتا ہے۔ قاضی سراج ایک سیدھے سادے صحافی تھی۔ مزدوروں کا درد ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ انہیں موٹر سائیکل چلانا نہیں آتی تھی لیکن جہاں بھی محنت کشوں کا کوئی پروگرام ہوتا قاضی سراج سب سے پہلے وہاں موجود ہوتے تھے۔ کراچی کے ماضی کے جتنے بڑے بڑے ٹریڈ یونینز فیڈریشن کے رہنما گزرے ہیں جن میں نبی احمد، خلیل الرحمن، ایس پی لودھی، سلیم رضا، ایم اے کے عظمتی، کرامت علی، پاشا احمد گل شہید ودیگر سب قاضی سراج کے قریبی دوستوں میں سے تھے۔ موجودہ ٹریڈ یونینز رہنماؤں میں پروفیسر شفیع ملک، شمس الرحمن سواتی، رانا محمود علی خان، قموس گل خٹک، ناصر منصور، حبیب الدین جنیدی، سید نظام الدین شاہ، قمر الحسن، کنیز فاطمہ، ظہور اعوان، مختار اعوان، عبدالعزیز میمن ودیگر سے قریبی تعلقات تھے۔
اس کے علاوہ وہ فیکٹری اور پلانٹ کے محنت کشوں سے بھی رابطہ کرتے اور انہیں اپنے مسائل پر قلم اٹھانے کا کہتے اور اس وقت جتنے بھی کراچی میں ٹریڈ یونینز رہنما ہیں۔ انہیں قاضی سراج نے ہی شعور اور آگہی فراہم کی ہے۔ اس کے علاوہ محکمہ محنت کے اداروں سوشل سیکورٹی، ای ایوبی ائی، ورکرز ویلفیئر بورڈ کے افسران سے بھی وہ رابطے میں رہتے اور ان کا موقوف بھی اخبار میں پیش کیا جاتا۔ میری ان سے پہلی ملاقات جسارت کے دفتر میں ہوئی میں انہیں دیکھ کر بہت حیران ہوا مجھے یقین نہیں آیا کہ یہ قاضی سراج ہیں۔ میں ان سے پوچھا کہ واقعی آپ قاضی سراج ہی ہیں تو انہوں نے کہا کہ ہاں میں ہی قاضی سراج ہوں کیوں کیا ہوا تمہیں شک کیوں ہے۔ میں نے کہا کہ جس طرح کا جسارت صفحہ محنت شائع ہوتا ہے اور اس میں جو محنت کی جاتی ہے وہ ایک جوان آدمی کا کام ہے ایک سفید داڑھی والا بوڑھا آدمی اتنا بڑا کام کیسے تن تنہا کر سکتا ہے۔ میری بات سن کر انہوں نے زور سے قہقہہ لگایا اوراپنے اندازمیں میرے ہاتھ پر ہاتھ مارا وہ میری اس بات پر بہت زیادہ خوش ہوئے اوراکثر جب کبھی ملاقات ہوتی تو وہ اس بات کو دہراتے تھے۔ ان کا انتقال جولائی کے مہینے میں ہوا تھا۔ اس قبل یکم مئی کو این ایل ایف کراچی کے تحت کوسٹ گارڈ کے قریب ماہی گیروں کے ایک پروگرام میں وہ تشریف لائے تھے میرا ہاتھ پکڑکر وہ ایک کونے میں لے گئے اور مجھ سے کہنے لگے کہ قاسم جمال آپ مجھے معاف کردو۔ میں کسی غلط فہمی کی بناء آپ کو برا بھلا کہتا تھا لیکن مجھے اب پتہ چلا کہ آپ کا اس معاملے میں کوئی ہاتھ نہیں تھا۔ میری عمر اتنی ہوگئی ہے پتا نہیں کب موت آجائے لہٰذا تم مجھے معاف کردو۔ میں نے کہا کہ قاضی صاحب مجھے جب کسی مسئلہ کا علم ہی نہیں اور میرا اس مسئلے سے کوئی واسطہ بھی نہیں تو آپ مجھ سے کیوں معافی مانگ رہے ہیں۔ آپ میرے استاد جیسے ہیں میں نے آپ کے ساتھ آپ کے معاون کے طور پر صفحہ محنت میں برسوں کام کیا ہے۔ لہٰذا آپ مجھے گناہ گار نہ کریں اور مجھ سے معافی نہ مانگے جس میں آپ قصور وار ہی نہیں۔ قاضی سراج انتہائی محبت کرنے والے شفیق انسان تھے۔
ہم نے برسوں ٹرین میں ساتھ سفر کیا۔ این ایل ایف کے پروگرامات میں وہ میرے ساتھ ہی جاتے تھے۔ پہلا سفر ہم نے1995ء میں پریم یونین کے جنرل کونسل کے اجلاس لاہور ہیڈ کواٹر میں شرکت کے لیے کیا تھا۔ مرحوم حافظ سلمان بٹ نے لبرٹی لاہور کے ایک ہوٹل میں قاضی سراج، مرحوم سعید صدیقی اور میرے اعزاز میں پرتکف عشائیہ کا اہتمام کیا تھا۔ تقریباً 10سال قبل نتھیا گلی مری میں این ایل ایف کی تربیت گاہ سے واپس ہمیں راولپنڈی الکرام بلڈنگ آنا تھا۔ اسٹاپ سے 2 اسٹاپ پہلے قاضی سراج زبردستی ضد کر کے اتر گئے کہ یہ اسٹاپ ہے میں نے بہت کہاں کہ اسٹاپ آگے ہے لیکن وہ نہیں مانے مجبوراً مجھے بھی ان کے ساتھ اترنا پڑا۔ جیسے ہی ہم اترے زبردست بارش شروع ہوگئی ہم بارش میں بھیگتے ہوئے اکرام بلڈنگ جو کہ تقریباً وہاں سے بیس پچیس منٹ کے فاصلے پر تھی پہنچ گئے۔ قاضی سراج پورے راستے بہت شرمندہ ہوتے رہے اور بار بار مجھ سے معافی مانگتے تھے کہ مجھ سے واقعی غلطی ہوگئی اور میں اسٹاپ سے بہت پہلے اتر گیا جس سے ہم دونوں ہی سخت پریشان ہو گئے اور بارش سے کپڑے اور سامان بھی بھیگ چکے تھے۔ قاضی سراج کو اگر کبھی اپنی غلطی کا احساس ہو جائے تو وہ معافی مانگتے میں دیر نہیں لگایا کرتے تھے۔ قاضی سراج جیسے لوگ روز روز پیدا نہیں ہوتے انہوں نے پاکستان کے مظلوم ترین طبقے محنت کشوں کے مسائل کے حل کے لیے آخری سانسوں اور بستر مرگ تک جدوجہد کی۔ روزنامہ جسارت سب کو معلوم ہے جماعت اسلامی کا ایک نظریاتی اخبار ہے لیکن انہوں نے ہمیشہ دائیں اور بائیں تمام طبقات کی خبروں اور سرگرمیوں کو نمایاں جگہ دی اور بھرپور کوریج فراہم کی۔ اکثر ان کے دوست انہیں کامریڈ قاضی سراج کے نام سے بھی پکارا کرتے تھے اور وہ یہ سن کر بہت خوش ہوتے اور اکثر کہتے کہ لوگ مجھے کامریڈ قاضی سراج کہتے ہیں۔ انہیں جسارت کے سابق ایڈیٹر راشد عزیز بھائی جو کہ آج کل صاحب فراش ہیں اللہ پاک انہیں جلد مکمل صحت یابی عطا فرمائے ان کی بھرپور سرپرستی حاصل تھی۔ انہوں کہا کہ قاضی سراج آپ اپنا کام کرو جماعت اسلامی اور این ایل ایف والوں کو میں سنبھال لوں گا اور انہیں مطمئن کروں گا۔
محمود احمد مدنی،راشد عزیز کی بھرپور سرپرستی، رہنمائی اور قاضی سراج کی انتھک محنت نے صفحہ محنت کو عالمی سطح پر مقبولیت دلائی اور پیر کے روز شائع ہونے والا جسارت کی سرکولیشن ڈبل سے بھی زیادہ ہوتی تھی۔ قاضی سراج ایک ایمان متقی آدمی تھے۔ انہوں نے ساری عمر رزق حلال ہی کھایا اور اپنے بچوں کو بھی رزق حلال کھلایا جس کی وجہ سے آج ان کے بچے بھی اپنے والد کی طرح ان کے مشن پر کار بند ہیں۔ ایک سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن صفحہ محنت اسی آن بان اور شان کے ساتھ شائع ہورہا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ قاضی سراج صاحب کی تمام حسنات کو قبول مقبول فرمائے۔ انہیں جنت میں شہداء اور صالحین کا قرب عطا فرمائے ان کے دونوں بچوں معاذ قاضی اوروہاج قاضی کو صحت سلامتی کے ساتھ محنت کشوں کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے اور ان سے وہ کام لیں جو کہ دنیا وآخرت میں کامیابی کا ذریعہ بن جائیں۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا