صحافت کی شان پروفیسر زکریا ساجد

545

زمین کھا گئی آسمان کیسے کیسے، آج پروفیسر زکریا ساجد ہم میں نہیں رہے، صحافت میں اُن کے ہونہار شاگرد محمد شہزاد بٹ جو سلامتی نیوز کے سی ای او ہیں نے مجھے فون کرکے اطلاع دی کہ ان کے استاد اپنے خالق حقیقی سے جاملے، میری بدقسمتی کہ بٹ صاحب نے مجھے مسجد ابراہیم یونیورسٹی سے فون کیا، اُس وقت میں کراچی یونیورسٹی سے بہت دور تھا اگر بروقت اطلاع مل جاتی تو میں لازمی شرکت کرتا۔ میری پروفیسر صاحب سے ایک ہی ملاقات ان کی رہائش گاہ پر ہوئی اس وقت آپ کافی کمزور اور بیمار تھے، مجھے شہزاد بٹ اپنے ساتھ لے کر گئے تھے، ان کی گفتگو بھی بڑی باکمال تھی علم کا خزانہ تھا ان کے پاس، ان کے بارے میں مزید اور معلومات میرے استاد محترم صحافت کا ایک درخشندہ ستارا جو زیادہ تر پاکستان سے باہر رہتے ہیں مگر اپنے چاہنے والوں کو ہمیشہ یاد رکھتے ہیں۔ اللہ ان کو سلامت رکھیے محترم عارف الحق عارف صاحب، انہوں نے میرے علم میں اضافہ فرمایا کیونکہ وہ پروفیسر زکریا ساجد کے ہم عصر لوگوں میں شامل ہیں۔ ستمبر 1963ء میں کراچی یونیورسٹی میں پروفیسر زکریا ساجد نے استاد کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی اور اسی کو اپنا سب کچھ بنالیا اور شعبہ صحافت کو ترقی دینے میں بڑا نمایاں کردار ادا کیا۔ صحافت میں اس زمانے میں ڈپلومہ ہوتا تھا آپ نے ڈپلومہ کے بجائے ماسٹرز کی ڈگری متعارف کرائی اور 1986ء میں اس کو ابلاغ عامہ کے شعبے میں تبدیل کرادیا، ان کے آنے کے بعد شعبے کے دو اساتذہ انعام الرحمن اور سعید احمد نے پی ایچ ڈی کیا اور شعبے کے سارے اساتذہ کو تحقیق کی اہمیت کا شعور ہوگیا اور شعبہ کے سب اساتذہ نے پی ایچ ڈی کرلیا۔

زکریا ساجد نے یونیورسٹی میں شامل ہونے کے بعد طلبہ میں بڑی مقبولیت حاصل کرلی اور مہربان استاد سے زیادہ ایک شفیق سرپرست کا درجہ حاصل کرلیا وہ اپنے طلبہ کا بڑا خیال رکھتے اور جو طلبہ فارغ ہوتے ان کی ملازمت کے لیے فکر مند ہوتے اور ہر اخباری ادارے میں سفارش بھی کرتے۔ اگر انہیں معلوم ہوتا کہ کسی شاگرد میں شعبے میں پڑھانے کی صلاحیت ہے تو آپ اُس سے خود رابطہ کرے اسے جزوقتی یا مستقل استاد کی حیثیت سے یونیورسٹی لے آتے۔ پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ، ڈاکٹر نثار احمد زبیری، میڈم ڈاکٹر شاہدہ قاضی، ڈاکٹر طاہر مسعود، ڈاکٹر شمس الدین اور ڈاکٹر محمود غزنوی ان کی کوششوں اور تجویز پر شعبے میں لائے گئے، اس کے علاوہ وسعت اللہ خان، سید عابد علی، جلیل احمد، نیاز احمد مدنی، عرفان حسین، سرور جاوید، کمال صدیقی، عابد حسین اور سید محمد عسکری کو معاون اساتذہ کی حیثیت سے شامل کرایا۔ ان کا لایا ہوا ہر استاد ایک سے بڑھ کر ایک نکلا اور شعبے کے استحکام کا باعث بنا، اس وقت ابلاغ عامہ کے جتنے بھی اساتذہ موجود ہیں وہ ان کے شاگرد ہیں۔ 1988ء میں اس شعبے میں 25 سال مکمل کرنے کے بعد ریٹائر ہوئے۔ اس دوران ان کی کوششوں سے پنجاب، گومل اور سندھ یونیورسٹیوں میں صحافت کے شعبے کو بھی ترقی دے کر ابلاغ عامہ کے شعبے میں تبدیل کیا گیا۔ آپ نے 12 سال تک پریس انسٹیٹیوٹ آف پاکستان میں ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کیا۔ انہوں نے اس حیثیت سے ملک میں اردو اور انگریزی صحافت اور ٹی وی چینلوں میں آزاد صحافت کے فروغ کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ 2009ء میں ان کی تعلیمی خدمات کے اعتراف میں سینٹر فار رورل ڈیولپمنٹ کمیونیکیشن کے کانفرنس ہال کو پروفیسر زکریا ساجد کے نام سے منسوب کیا۔ 2014ء میں صدر پاکستان ممنون حسین کی جانب سے انہیں صدارتی ایوارڈ، تمغہ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔ اس وقت آپ کے شاگرد فاروق عادل صاحب صدر کے پریس سیکرٹری تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے اس اعزاز کی اطلاع پروفیسر زکریا ساجد کو دی تو انہوں نے کہا تھا کہ مجھے کوئی ایوارڈ نہیں چاہیے۔ میں نے جو کچھ کیا اس کا صلہ میرے طلبہ اپنی محبت سے دیتے ہیں یا پھر اللہ دے گا۔

ڈاکٹر فاروق عادل اس کی تفصیل خود بیان کرتے ہیں۔ جن دنوں میں ایوان صدر میں تھا۔ ایک بار ایسا ہوا کہ صدر مملکت ممنون حسین نے براہ راست فون کرکے مجھے طلب کیا۔ یہ بات کوئی معمولی نوعیت کی نہیں تھی میں فوراً ایوان صدر پہنچا، دیکھا کہ صدر صاحب اپنی نشست پر تشریف رکھتے تھے، ان کے سیکرٹری کے علاوہ ایک صاحب فائل میں سر دیے بیٹھے تھے۔ صدر صاحب مجھے دیکھ کر مسکرائے اور کہا جن صاحب کو ہم نے صدارتی ایوارڈ کے لیے نامزد کیا ہے۔ انہوں نے تو ایوارڈ لینے سے انکار کردیا، میں نے پوچھا وہ صاحب کون ہیں تو افسر نے کہا کہ کوئی پروفیسر ساجد ہیں۔ یہ تو بہت بُری بات ہے۔ توہین ہے صدر پاکستان کی ایوان اقتدار میں ایسے مواقع کم لوگوں کو ملتے ہیں، میں نے پوچھا کہ انہوں نے کیا کہا ہے؟ بتایا گیا کہ کیبنٹ ڈویژن سے جب انہیں اطلاع دی گئی کہ صدر صاحب نے آپ کو صدارتی ایوارڈ کے لیے منتخب کیا ہے تو انہوں نے کہا کہ مجھے کوئی ایوارڈ نہیں چاہیے، میں نے جو کچھ کیا اس کا صلہ میرے بچے (طلبہ) اپنی محبت سے دیتے ہیں یا پھر اللہ دے گا، میں نے عرض کیا کہ سر اس سے تو ثابت ہوتا ہے کہ یہی شخص ایوارڈ کا اصل حق دار ہے۔ جس پر صدر پاکستان نے کہا ساجد صاحب جو بھی کہیں ایوارڈ انہی کو دیا جائے گا۔

زکریا ساجد مرحوم کے شاگردوں میں پاکستان ہی کے طالب علم شامل نہیں تھے بلکہ دوسرے کئی ملکوں کے طلبہ بھی شامل ہیں جن میں سعودی عرب، تھائی لینڈ، نیپال، اردن، عراق اور نہ جانے کہاں کے لوگ شامل ہیں۔ اس وقت اگر غور کیا جائے تو کراچی اور پاکستان بھر کے اخبارات اور میڈیا ہائوسز میں بڑے بڑے عہدوں، صحافیوں، اینکر پرسن میں ان کے شاگرد چھائے ہوئے ہیں۔ محترم استاد عارف الحق عارف صاحب کا بے حد مشکور ہوں کہ انہوں نے پروفیسر زکریا ساجد صاحب کے حوالے سے میرے علم میں اضافہ کیا۔ میری ناقص رائے تو ان کو قائد صحافت یا بانی ابلاغ عامہ لکھنا زیادہ اچھا ہوگا۔ ایسے درویش صفت لوگ برسوں میں پیدا ہوتے ہیں جو اس شعر پر پورے اترتے ہیں۔

کرو مہربانی تم اہل زمین پر
خدا مہربان ہوگا عرش بریں پر