بنگلا دیش میں طلبہ کی ایک زبردست احتجاجی تحریک چلی جو اپنے مقصد میں کامیاب ہوئی اسی لیے اب اس تحریک کی لو مدھم پڑگئی لیکن اس تحریک کے بنگلا دیشی سیاست پر آئندہ کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اس پر بات کرنے سے پہلے اسی سال 17جنوری کو ہم نے ایک مضمون ’’حسینہ واجد سے حسینہ واحد تک‘‘ لکھا تھا اس کے کچھ نکات دوبارہ دیکھ لیتے ہیں۔ حسینہ واجد کو حسینہ واحد لکھنے کی دو وجوہ ہیں پہلی تو یہ کہ 1974 میں جب بنگلا دیش میں فوجی انقلاب آیا اور کرنل فاروق کی قیادت میں فوجیوں کے ایک گروپ نے دھان منڈی میں شیخ مجیب الرحمن کی رہائش گاہ پر حملہ کرکے مجیب سمیت ان کے سارے گھر والوں کو قتل کردیا اس وقت شیخ مجیب کی بیٹی حسینہ واجد جو امریکا میں تھیں بچ گئیں مجھے یاد ہے میں نے کہیں پڑھا تھا کہ جب مجیب کے خاندان کے تمام افراد کو قتل کرکے فوجی آئے تو اس ایکشن کی کمانڈ کرنے والے کرنل فاروق نے ان سے پوچھا کہ ہاں بھئی سب لوگ ہلاک کردیے تو ان میں سے ایک نے جواب دیا کہ ہاں سب کو مار دیا ایک چھے ماہ کے بچے کو چھوڑ دیا ہے، سانپوں کو مار دیا اور سنپولے کو چھوڑدیا یہ کہتے ہوئے کرنل فاروق کمرے میں گئے اور اس بچے کو بھی مار دیا اس طرح حسینہ واجد اپنے خاندان کی واحد فرد تھیں جو زندہ رہ گئیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اسی کرنل فاروق کو جو باہر کسی ملک میں روپوش تھے حسینہ واجد نے اپنے دور حکومت میں انہیں انٹرپول کے ذریعے ملک میں بلوایا اور ان پر مقدمہ چلا کر انہیں پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا۔
حسینہ واحد لکھنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اس وقت بنگلا دیش میں وہ واحد ایسی سیاسی رہنما ہیں جو وزیر اعظم بن سکتی ہیں بنگلا دیش میں اور کوئی سیاسی رہنما دور دور تک نظر نہیں آتا جو ان کے مقابلے کا ہو جیسا کے دیگر ممالک میں کئی نام آتے ہیں امریکا میں صدر جو بائیڈن کے مقابلے میں ٹرمپ کا نام آتا ہے۔ پاکستان میں نواز شریف، شہباز شریف، عمران خان، آصف زرداری اور بلاول زرداری وزارت عظمیٰ کی دوڑ میں نظر آتے ہیں لیکن بنگلا دیش میں اکیلے حسینہ واجد ہی اس منصب کے حصول میں دوڑتی ہوئی نظر آتی ہیں کوئی اور ان کے مقابلے میں ہے ہی نہیں۔ حسینہ واجد اپنی ذات میں حزب اقتدار بھی ہیں اور حزب اختلاف بھی وہ خود مقننہ بھی ہیں اور خود عدلیہ بھی یعنی جدھر دیکھتا ہوں اُدھر تو ہی تو ہے یہ اگر چاہتیں تو پارلیمنٹ کی تمام نشستیں جیت سکتی تھیں لیکن انہوں نے جمہوریت پر یہ مہربانی کی کچھ نشستیں چھوڑ دیں تاکہ اس پر کچھ دیگر جماعتیں یا آزاد امیدوار کامیاب ہو جائیں ہمیں تو دو تہائی اکثریت چاہیے وہ مل گئی اور بعد میں ضرورت پڑی تو یہ آزاد ارکان بھی ساتھ آسکتے ہیں۔ اس طرح بنگلا دیشی سیاست میں وہ اپنی ذات میں واحد ہیں۔
حسینہ واجد پانچویں مرتبہ وزیر اعظم بنی ہیں یہ پچھلے پندرہ برس سے مسند اقتدار پر فائز ہیں اور تاحیات اسی منصب پر رہنا چاہتی ہیں، دراصل ہوا یہ کہ یہ جب پہلی مرتبہ وزیر اعظم بنیں تو انہوں نے آئین میں ترمیم کرکے انتخابات کے انعقاد کے لیے نگراں حکومت کی شق ختم کردی جبکہ اس سے قبل حکومت اور اپوزیشن کی مشاورت سے نگران حکومت کا تقرر کیا جاتا تھا دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان میں بھی بنگلا دیش ماڈل کی نقل میں نگراں حکومت کا سلسلہ قائم ہوا چنانچہ اب ہمارے ملک میں ہر انتخاب کے موقع پر نگراں حکومت قائم کی جاتی ہے جیسا کہ آج کل بھی ملک میں نگرانوں کی حکومت ہے۔ حسینہ واجد نے انتخاب سے قبل اپوزیشن کو پابند سلال کیا مجبوراً مخالف جماعتوں کو الیکشن کے بائیکاٹ کی طرف جانا پڑا حسینہ واجد چاہتیں تو خود بلا مقابلہ کامیاب ہو سکتی تھیں لیکن انہوں نے انتخاب لڑنا مناسب سمجھا اور اپنے حلقے سے ڈھائی لاکھ ووٹ حاصل کیے جبکہ ان کے مخالف امیدوار کو ساڑھے چار سو ووٹ ملے، اس سے کم از کم دنیا کو یہ بات تو پتا چل گئی کہ ان کے چاہنے والے لاکھوں کی تعداد میں ہیں اور ان کی مخالفت میں چند سو لوگ ہیں۔ بنگلا دیش کی سیاست میں قابل تشویش بات یہ ہے کہ وہاں کی حزب اختلاف متحد ہے نہ مضبوط۔ اس کے علاوہ کوئی مضبوط اور جاندار شخصیت بھی ایسی نہیں ہے جو ان کے مقابلے پر آسکے بنگلا دیش کے انتخابات پر امریکا اور برطانیہ اور یورپی ممالک نے تو تحفظات کا اظہار کیا ہے لیکن روس اور چین نے اطمینان کا، وہ اس لیے کہ بنگلا دیش کو امریکا کی قربت سے نکال کر اپنے قریب لایا جائے ہندوستان نے تو اس انتخاب پر خوشی کا اظہار کیا ہے حالانکہ بنگلا دیش کے قیام میں جتنا روس اور ہندوستان کا حصہ ہے اتنا ہی امریکا، برطانیہ اور یورپی ممالک کا بھی ہے یہ الگ موضوع ہے کہ سقوط ڈھاکا کے المناک موقع پر ان بڑی قوتوں کا کیا کردار تھا، اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔
دراصل حسینہ واجد کے انتخاب میں ہندوستان کی مرضی اور منشاء شامل ہے ہندوستان کو معلوم ہے کہ جتنی اطاعت یہ خاتون وزیر اعظم کرسکتی ہے اور کررہی ہیں وہ شاید کوئی اور نہ کرسکے بنگلا دیش اور پاکستان میں بہت فرق ہے بنگلا دیش ایک لادینی ریاست ہیں ان کا آئین سیکولر ہے جبکہ پاکستان ایک دینی ریاست ہے اور اس کا آئین کسی حد تک اسلامی آئین ہے، پاکستانی فوج کا شمار دنیا کی بہترین فوجوں میں ہوتا ہے جبکہ بنگلا دیش کی فوج اتنی مضبوط فوج نہیں ہے پاکستان ایک ایٹمی اسلامی ملک ہے بنگلا دیش غیر ایٹمی اسلامی ملک ہے وہ بھی اسلامی ملک آئین کی وجہ سے نہیں مسلمانوں کی آبادی کی وجہ سے۔ بنگلا دیش کو اپنی سرحدوں پر کوئی خطرہ نہیں پاکستان کا مشرقی اور مغربی محاذ تو سدا سے گرم رہتا ہے افغانستان میں ٹی ٹی پی جس کے پاس افغان حکومت کی بے بسی، کمزوری اور لاپروائی کی وجہ سے امریکا چھوڑا ہو جدید اسلحہ آگیا ہے امریکاکی خاموش پشت پناہی اور ہندوستان کی اسٹرٹیجک معاونت سے ٹی ٹی پی پاکستان میں آئے دن دہشت گردانہ کارروائیاں کرتی رہتی ہے جس سے ہماری فوج کا بڑا قیمتی جانی نقصان ہو رہا ہے۔ بنگلا دیش کو ایسی کسی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑتا اس کی سرحدیں محفوظ ہیں ان ہی وجوہات کی بنا پر اس کی معیشت پاکستان سے بہتر ہے۔
بنگلا دیش میں طلبہ کی احتجاجی تحریک کی وجہ یہ تھی کہ 1971 میں جن لوگوں نے پاکستانی فوج کے خلاف جنگ میں حصہ لیا تھا اس میں چاہے مکتی باہنی کے لوگ ہوں یا پاکستانی فوج کے غدار بنگالی افسران و فوجی ہوں ان کے بچوں کے لیے آئین میں سرکاری ملازمتوں کے لیے 5 فی صد کوٹا تھا اور 20 فی صد کچھ مخصوص علاقوں و افراد کے لیے بقیہ 75 اوپن میرٹ۔ حسینہ واجد نے اپنی دوتہائی اکثریت کے زعم میں پاکستانی فوج کے خلاف لڑنے والوں کی اولادوں کے لیے کوٹا 5 فی صد سے بڑھا کر 30 فی صد کردیا اسی طرح کچھ مخصوص علاقوں میں بھی ردو بدل کیا اس طرح اوپن میرٹ 75 فی صد سے کم ہو کر 45 فی صد رہ گیا۔ اس نا انصافی پر پورے بنگلا دیش میں طلبہ سڑکوں پر آگئے حسینہ واجد کی رٹ ختم ہو کر رہ گئی اور انہوں نے اس تحریک کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے خود اس قانون کی واپسی کا اعلان نہیں کیا بلکہ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے سابقہ کوٹا برقرار رکھا اور طلبہ کے مطالبات مان لیے دلچسپ بات یہ ہوئی کہ احتجاج کرنے والے طلبہ کے بارے میں حسینہ واجد نے بیان دیا کہ یہ سب پاکستان کے حامی ہیں اس کا مطلب ہے کہ بنگلا دیش میں شیخ مجیب کی بیٹی کی حکومت میں پاکستان کے حامی کامیاب ہوگئے۔ اب اس میں کچھ باتیں ہمارے حکمرانوں کی توجہ کے لیے ہے حسینہ واجد فارم 47 کی تو حکمران نہیں ہیں لیکن ان کا انتخاب اس سے بھی بڑھ کر دھاندلی والا تھا مگر امریکا کے کسی ایوان میں اس پر کوئی قرارداد پاس نہیں ہوئی بہرحال کمزور بنیادوں پر قائم ہونے والی حکومتیں عوامی سیلاب کے سامنے ٹھیر نہیں سکتیں دوسری بات یہ کہ حسینہ واجد کو کم و بیش پندرہ سال ہوگئے اب ان کے خلاف اتنی منظم تحریک طلبہ کی طرف سے اٹھی اور اس نے کامیابی حاصل کی۔ پیپلز پارٹی کو بھی سندھ میں پندرہ برس ہو گئے ہیں وہ بھی اب سندھ کے نوجوانوں کی حق تلفی ختم کرے ورنہ یہاں بھی کوئی تحریک حکومت سندھ کے خلاف اٹھ سکتی ہے۔ دوتہائی اکثریت حکمرانوں کی طاقت نہیں بلکہ بہت بڑی کمزوری ہے اور یہ آمریت کی ملتی جلتی شکل ہے اس کی وجہ سے چیک اینڈ بیلنس کا نظام ختم ہوجاتا ہے اس لیے حکمرانوں کے خلاف نفرت بڑھ جاتی ہے جو پھر ان کے خلاف ایک منظم تحریک کا سبب بن جاتی ہے آخر میں ہم یہی کہیں گے کہ بنگلا دیش میں اب بہت جلد حسینہ واجد کی آمریت اپنے اختتام کو پہنچنے والی ہے۔