… پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے!!

427

آئی ایم ایف سے لے کر تمام دوستوں اور عرب ممالک تک پاکستان کے حکمرانوں کی بھاگ دوڑ دیکھ کر وہ قصہ پتا نہیں کیوں یاد آرہا ہے جو جانوروں کی حکمرانی کے حوالے سے معروف ہے جو لاحاصل بھاگ دوڑ میں پاکستان کے موجودہ دور سلطانی سے حیرت انگیز حد تک مماثلت رکھتا ہے کہ مملکت خداداد میں بھی جنگل کا سا راج ہے اور مہاراج کا جنگل میں منگل کا اہتمام ہے۔ یہ منگل کا دن بڑا اہم رہا ہے۔ اور ہر مارشل لا ملک میں اسی دن لگا ہے اور اس کی شدت کی بنا پر سندھی زبان میں اس دن کو ’’انگارو‘‘ کہا جاتا جس کا مطلب دہکتا ہوا کوئلہ ہے۔ اب قصہ جانوروں کا کچھ یوں ہے کہ جنگل کا بادشاہ ایک سانحہ کا شکار ہو کر راہی ملک عدم ہوا تو جانوروں کی مشاورت ہوئی اور فیصلہ حالات واقعات کو مدنظر رکھتے بوڑھوں نے بندر کو بادشاہ بنادیا کہ یہ کچھ تجزیہ کار ہے، جو جنگل کی معاشی بدحالی کا بندوبست کرے اور کلہاڑی جو آزادانہ ہرے بھرے جنگلات کی بے دریغ کٹوتی میں مصروف عمل ہے اس کی روک تھام کرے۔ بندر کی تاج پوشی ہوگئی، تالیاں بج گئیں، 90 دن کی کارکردگی کے بعد اُن بڑے بوڑھے جانوروں نے دیکھا کہ بات بنی نہیں بلکہ روز بروز بگڑتی جارہی ہے ذرا بادشاہ جنگل کی رپورٹ تو لیں وہ کیا کررہے ہیں وہ بندر کی راج دھانی پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ بندر بادشاہ درختوں پر چھلانگ لگارہے ہیں کبھی اس درخت پر تو کبھی اس درخت پر جب کچھ وقف ہوا تو وفد نے بندر باشاہ سے فرمایا کہ کھانا پینا ہی دشوار نہیں ہوگا جینا بھی مشکل ہوگیا آپ کے ہرکارے ہاتھ سے لقمہ تک چھین کر درختوں پر چھلانگ لگا کر فرار ہوجاتے ہیں قفس میں زندگی ہوگئی کچھ تدبیر کیجیے۔ اپنے بندروں کو لگام دیجیے کچھ بچت کا سامان کیجیے ایسے بُرے دن تو ہم نے کبھی نہیں دیکھے آپ بادشاہ وقت ہیں آپ کرتا دھرتا ہیں آپ کا بھی کوئی دین دھرم ہوگا جو بھوکوں کی دست گیری کرے، کچھ تو سوچیے کچھ تو تدبیر کیجیے سرکار۔

بندر بادشاہ نے یہ شکوے شکایات سنیں تو پوچھا کیا تم نے نہیں دیکھا کہ میں کتنی بھاگ دوڑ کررہا ہوں اِس درخت سے اُس درخت تک اس درخت سے پہلوٹی درخت پر چھلانگیں مار رہا ہوں۔ بھاگ دوڑ کررہا ہوں اور بتائو میں کیا کروں، آپ کے نام پر امداد لینے اور اپنے مصرف حکمرانی کے نام پر صرف کرنے کے عمل میں اگر رعایتوں میں اضافہ کررہا ہوں تو یہ پروٹوکول کا تقاضا ہے اور اپنے حمایتیوں کو خوش نہ رکھوں تو یہ بے پیندے کے لوٹے ہیں لوٹ جائیں گے، میری بھاگ دوڑ میں کوئی کمی ہو تو بتائو میرے معاملات میں ٹانگ مت اٹکائو۔ میرے بندر ہی میری حکمرانی میں مزے نہ اُڑائیں تو پھر فائدہ کیا ہے میری حکمرانی کا۔ بندر بادشاہ کی گوہر افشانی اور کہانی سے بڑے بوڑھے سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ اس روز پر پچھتانے لگے جس روز انہوں نے یہ فیصلہ کیا تھا اب بندر اور لنگور کی بندر بانٹ ہے، اب کیا راہ نجات ہے؟ سیانے نے کہا کہ جو اقتدار پر بٹھا سکتا ہے وہ اتار بھی سکتا ہے، ہمت مرداں مدد خدا، اُٹھو کھڑے ہو، اقتدار کا پانسہ پلٹ دو، پاکستان کے عوام بھی کالانعام کی طرح سوچ میں گرفتار ہیں وہ اپنی قوت سے ناآشنا ہیں۔ سیانے کہتے ہیں کہ ایک فی صد خیر اور ایک فی صد شر کی قیادت ہوتی ہے جو عوام الناس کو لے کر چلتی ہیں جس کے ہاتھ عوام کی باگ آجائے وہی غلبہ پا جاتا ہے اب خیر و شر کی کش مکش ہے ہم اللہ سے خیر کے طلب گار ہیں ملک کی قسمت عوام کے ہاتھ میں ہے بندروں کے نہیں جو ہر تنگی کے بعد آسانی ہے۔

یہ فرمان ربی ہے جو شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ تنگی حیات نے تنگ آمد بجنگ آمد کی راہ دکھا دی ہے اب اس غم و غصہ کو درست راہ دینے کے لیے جماعت اسلامی کے نو منتخب امیر حافظ نعیم کی قوم سے اپیل کہ وہ 26 جولائی کو سراپا احتجاج ہوجائیں، تادمِ تحریر اسلام آباد میں معرکہ شروع ہونے کی اطلاعات آنا شروع ہوچکی ہیں۔

اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے

دور کیوں جائیے آزاد کشمیر کے عوام بنیان المرصوص کی طرح اٹھ کھڑے ہوئے تو منزل نے ان کے قدم چوم لیے۔ خیر کے دست و بازو بنیں اور شر کو شکست فاش دے دیں۔ ملک کی باگ خیر کے ہاتھ میں دے دیں یہ ربّ کی تائید سے ملک و قوم کی قسمت بدل دیں گے۔