قارئین کرام یہ کالم بجٹ کے موقع پر ہی اس ماہ کی 8 تاریخ کو لکھ لیا گیا تھا لیکن پھر نہ جانے کہاں کمپیوٹر کی وسعتوں میں گم ہو گیا تھا۔ آج کمپیوٹر کھولا تو یکدم سامنے آگیا۔ بجٹ کا موضوع سارا سال ہی چلتا رہتا ہے، سو تاخیر سے سہی لیکن ملاحظہ فرمائیے:
موجودہ بجٹ اس بات کی علامت ہے کہ جو جنگلی کتے ریاست پاکستان کے تعاقب میں تھے، جن سے بچنے کے لیے دوڑتے دوڑتے ریاست ہانپ گئی تھی، اب بے دم ہوکر وہ ان کے سامنے ڈھیر ہوگئی ہے۔ اب اندر اور باہر کے کتے اسے بھنبھوڑ رہے ہیں۔ ریاست میں اتنا دم نہیں ہے کہ وہ ان کتوں کو مار سکے، بھگا سکے۔ بس ان کے لگائے ہوئے زخموں کو مندمل کرنے اور نوچے گئے بَوٹوں کی جگہ بھرنے کے لیے مرہم پٹی میں مصروف ہے۔
پاکستان کے سرمایہ دار حکمران اپنی بدترین بددیانتی اور نااہلی کے سبب ریاست کو اس مقام تک لے آئے ہیں جب ریاست ہڈیوں کے ایک پنجر کے سوا کچھ نہیں۔ گدھ بھی بے خوف ہوکر نیچی پرواز کررہے ہیں۔ تقریباً انیس ہزار ارب روپے (18 ہزار 877 ارب روپے) کے کل وفاقی بجٹ کا آدھے سے زیادہ تقریباً دس ہزار ارب روپے (9 ہزار 775 ارب روپے) قرضوں کی واپسی پر نہیں، قرضوں کے سود کی مد میں خرچ ہوجائے گا جس کے بعد بھی سود خور ریاست کے بے دم وجود پر اسی طرح کوندتے پھاندتے رہیں گے۔
اس بڑے جھٹکے کے بعد جو تقریباً نو ہزار ارب روپے باقی بچے ہیں ان میں سے تین ہزار ایک سو ارب روپے دفاع کے نام پر خرچ ہو جائیں گے تاکہ وہ لکڑ بگے جو ریاست کے اردگرد چکر لگا رہے ہیں، کبھی کہیں سے نوچ کھاتے ہیں اور کبھی کہیں سے ان کو ڈرانے کے لیے ریاست لمبے سانس لیتی رہے، ڈکراتی رہے اور خوفناک آوازیں نکالتی رہے۔ اپنے وجود کا پتا دیتی رہے۔ باقی کے چھے ہزار ارب روپے میں سے 1 ہزار 152 ارب روپے حکومتی عیش وعشرت پر خرچ ہو جائیں گے جس میں پارلیمنٹ، صدر اور وزیراعظم محل کے اخراجات شامل ہیں اس سال جن میں تیس فی صد اضافہ کردیا گیاکیونکہ اس وقت جب کہ پاکستان میں زندگی ایک اذیت بن چکی ہے وہ حکمران جو بڑی ڈھٹائی بے غیرتی اور بے شرمی کے ساتھ حکومت کررہے ہیں ان کی شاہانہ طرز زندگی میں کوئی فرق نہ آئے جب تک کہ ریاست کی پتھرائی ہوئی آنکھیں بے دم نہ ہوجائیں۔
جو تقریباً پانچ ہزار ارب روپے باقی بچے ہیں ان میں سے ڈیڑھ ہزار ارب روپے سے زائد (1 ہزار 674) ارب روپے ترقیاتی اخراجات اور ادراہ جاتی قرضہ جات کے لیے مختص کیے گئے ہیں جس کا بڑا حصہ کرپشن کی نذر ہوجائے گا۔ باقی بچے تقریباً ساڑھے تین ہزار ارب روپے ان میں سے ایک ہزار 363 روپے سبسڈیوں کی مد میں خرچ ہو جائیں گے جس کا فائدہ حکومتی کاروباری سرمایہ داروں کو پہنچے گا۔ باقی ماندہ تقریباً دوہزار ارب روپے میں سے ایک ہزار ارب روپے پنشنوں اور بقیہ دیگر مدوں میں خرچ ہو جائے گا۔ اس کے بعد کیا بچے گا سوائے ٹائیں ٹائیں فش کے۔
سرسری جائزے سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس بجٹ کی اوقات اس کاغذ کے پرزے کے برابر بھی نہیں جس پر چھاپ کر یہ قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا۔ یہ بجٹ ایک دھوکا ہے۔ بجٹ پیش کرتے وقت خزانے میں ایک ڈالر بھی ریاست پاکستان کا ’’ذاتی‘‘ موجود نہیں تھا۔ نو ارب ڈالر کے جس زرمبادلہ کا شور کیا جارہا ہے وہ بھی ایک ڈھونگ، ڈھکوسلہ اور مختلف ممالک اور بینکوں سے مانگے تانگے کا ہے جس میں سے ایک دھیلا بھی خرچ نہیں کیا جاسکتا۔ اس کنگلے پن کی انتہا پر آئی ایم ایف اور اس کے بعد دیگر سود خوروں سے بھاری شرح سود پر قرضہ اٹھانا ہدف ہے۔ وزیر خزانہ کو یہ بجٹ پیش کرتے وقت شرم سے پسینہ پسینہ ہونا چاہیے تھا لیکن وہ ہر ٹی وی چینل پر بیٹھے بڑی خوشی سے اور اتراترا کر اعلان کررہے تھے کہ یہ بجٹ آئی ایم ایف کی تمام تر لاگو شرائط کے عین مطابق ہے۔ یہ بجٹ آئی ایم ایف کی اسٹاف لیول ٹیم کی ان گیارہ دنوں کی ڈکٹیشن کا نتیجہ تھا جو وہ پچھلے مہینے اسلام آباد میں بیٹھ کر بجٹ کے ایک ایک پیراگراف، شق اور فل اسٹاپ پر دیتی رہی ہے تاکہ جولائی میں ممکنہ 6 ارب ڈالر کا نیا قرض معاہدہ کیا جا سکے۔
سلطنت مغلیہ کے آخری آخری شب وروز میں جب میواتی راہزن دلی میں لوٹ مار کرکے جنگلوں کو واپس لوٹ جاتے اور روتے پیٹتے فریادی داد رسی کے لیے لال قلعہ کا رخ کرتے تو حضور بادشاہ سلامت بھی فریادیوں کے ساتھ آسمان کی طر ف منہ اٹھا کر دعا کے لیے ہاتھ بلند کردیتے تھے بالکل اسی طرح جس طرح اسلام آباد میں بیٹھی عوام دشمن حکومتی مشینری اور حکمرانوں کو سمجھ میں نہیں آرہا کہ عوام کے سامنے وہ اس بجٹ کا کیا جواز پیش کریں۔ بجٹ تقریر میں وزیراعظم شہباز شریف ٹی وی پر جس طرح روتے اور سینہ کوبی کرتے نظر آرہے تھے اس میں عوام کے غم اور ان سے ہمدردی سے زیادہ یہ خوف موجود تھا کہ عوام کہیں سڑکوں پر نہ آجائیں۔ اس تھرڈ کلاس اوور ایکٹنگ میں بھی وہ اپنے حکمران طبقے کی اربوں کھربوں روپے کی لو ٹ مار چھپانے کی کوشش کررہے تھے۔ لیکن یہ سب ناکام کوشش کے سوا کچھ نہیں تھا کیونکہ حکمرانوں کی ہر ڈکیتی رہزنی لوٹ مار، عیاشی اور کرپشن کی واردات کے بعد اب عوام ان کے رہن سہن کا اپنے بلکتے دنوں اور سسکتی راتوں سے موازنہ کرتے ہیں۔
سانس لینے کے سوا اس بجٹ میں عوام کو دستیاب تقریباً ہر چیز پر ٹیکس لگایا جاچکا ہے۔ بچوں کے دودھ سے لے کر پنسل تک سات ہزار بنیادی اشیا ٹیکس کے دائرے میں شامل ہیں۔ کل ٹیکس آمدن کا تقریباً دو تہائی محنت کش عوام سے بالواسطہ ٹیکسوں کی صورت وصول کیا جائے گا جبکہ بقیہ ایک تہائی براہ راست ٹیکسوں کا ایک بڑا حصہ تنخواہ دار طبقے پر عائد انکم ٹیکس اور چھوٹے کاروبار کو نشانہ بناکر حاصل کیا جائے گا۔
معیشت کے استحکام کے نام پر ملکی اور غیر ملکی سرمایہ داروں اور ریاستی اشرافیہ کو 4000 ارب روپے سالانہ کی معاشی مراعات دی جاتی ہیں لیکن اس دھکے کے باوجود معیشت چلنے کا نام نہیں لے رہی۔ پچھلے تیس برسوں سے نجکاری کا عمل بھی سستی اور تیزی کے ساتھ جاری ہے، بیرونی سرمایہ کاری بھی ہورہی ہے اور سرمایہ داروں کو مراعات بھی دی جارہی ہیں لیکن کوئی بتانے کے لیے تیار نہیں پھر بھی ریاستی قرضہ کیوں بڑھتا جارہا ہے، بے روزگاری کیوں آسمانوں کے چکر لگارہی ہے اور مہنگائی کیوں بے قابو ہے۔ غریب کیوں غریب تر ہوتا جارہا ہے اور امیروں کی دولت کیوں چھلانگیں مارتی آگے بڑھ رہی ہے۔
پچھلے دنوں دبئی میں 17 ہزار سے زائد پاکستانیوں کی دبئی میں 12 ارب ڈالر سے زائد کی جائدادوں کا انکشاف ہوا جو اس حقیقت کا اظہار ہے کہ جرنیلوں ججوں سیاست دانوں، سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کا سب کا اس ملک کے مستقبل پر سے یقین اُٹھ گیا ہے۔ جس کو موقع مل رہا ہے وہ پاکستان سے بھاگنے کے چکر میں ہے جس کی حیثیت ہے وہ اس مشن میں کامیاب ہے لیکن وہ جو عام آدمی ہے اس کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ: میں کیہڑے پاسے جاواں۔۔۔ میں منجی کتھے ڈھاواں