بڈاپسٹ :ہنگری کے وزیرِاعظم وکٹر اوربان نے یہ کہہ کر بہت سوں کو حیران کردیا ہے کہ پاکستان میں بھی ایک بڑی طاقت کی حیثیت سے ابھرنے کی بھرپور صلاحیت و سکت موجود ہے۔ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ہنگری کے وزیرِاعظم نے چند معاملات کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا۔
وکٹر اوربان کہتے ہیں ایشیا ایک بار پھر عالمی طاقت کا مرکز بننے والا ہے۔ یہ وقت اب زیادہ دور اس لیے نہیں رہا کہ چین اور روس کمر کس کر میدان میں آچکے ہیں۔ بھارت بھی بہت تیزی سے ابھر رہا ہے۔ ایسے میں پاکستان الگ تھلگ نہیں رہ سکتا کیونکہ وہ اِن تینوں ممالک کے لیے بہت اہم ہے۔ چین کے لیے پاکستان دروازے کا درجہ رکھتا ہے اور بھارت چونکہ پڑوسی ہے اس لیے پاکستان سے بے نیاز و لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ روس کے لیے بھی پاکستان کم اہم نہیں کیونکہ گرم پانیوں تک رسائی میں پاکستان بھرپور کردار ادا کرسکتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ انڈونیشیا اور ملائیشیا بھی تیزی سے ابھرتے ہوئے ایشین بلاک کی تشکیل اور مجموعی قوت میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔
کیا پاکستان ابھر سکتا ہے؟ کیا پاکستان میں اس قدر دم خم ہے کہ اپنے آپ کو تیزی سے ابھرتی ہوئی طاقتوں کی صف میں کھڑا کرسکے۔ امریکی صدور بھی کئی مواقع پر پاکستان کو خطرناک قرار دے چکے ہیں۔ وکٹر اوربان نے جو کچھ کہا ہے وہ بہت سوں کے لیے انتہائی چونکانے والا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس میں زیادہ چونکانے والی کوئی بات نہیں۔
کسی زمانے میں پاکستان بہت تیزی سے ابھرا تھا۔ اپنے قیام کے بعد ڈیڑھ عشرے کے دوران پاکستان نے مختلف شعبوں میں اپنے آپ کو ایسی عمدگی سے منوایا تھا کہ مخالفین اور معاندین کو یقین نہ آتا تھا کہ انتہائی کس مپرسی کے عالم میں دنیا کے نقشے پر ابھرنے والا کوئی ملک اِتنی تیزی سے اقوامِ عالم میں اپنے لیے جگہ بناسکتا ہے۔
یہ سب کچھ چونکہ کسی بڑی طاقت کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا اس لیے پاکستان کو contain کرنے کی پالیسیاں اختیار کی گئیں۔ جن شعبوں میں پاکستان آگے بڑھ رہا ہے اُن شعبوں کو منظم سازش اور برسوں کی محنت کے ذریعے ٹھکانے لگایا گیا۔ پاکستان کی تباہی کوئی راتوں رات رونما ہونے والا معاملہ نہیں۔ اِس کے لیے مغربی طاقتوں سے عشروں تک سوچا ہے اور محنت کی ہے۔
وکٹر اوربان نے اپنے خطاب میں اس بات پر شدید تاسف کا اظہار کیا کہ اہلِ مغرب نے روس کو بھی ایشیائی بلاک کی طرف دھکیل دیا ہے۔ روس کا ایشیا کی جھکنا مغرب کے لیے انتہائی تشویش ناک ہے کیونکہ اب وہ یورپ اور امریکا دونوں کے لیے کھل کر معاندانہ طرزِ فکر و عمل رکھتا ہے۔
روس کا رقبہ چونکہ بہت زیادہ ہے اس لیے وہ ایشیا میں بھی ہے اور یورپ میں بھی۔ یہ بات آج تک کوئی طے نہیں کرسکا کہ روس دراصل ہے کیا؟ ایشیائی طاقت یا یورپی طاقت؟ امریکا اور یورپ کی پالیسیوں کے نتیجے میں روس کا ایشیائی بلاک کی طرف جھک جانا ایشیا کے لیے نیک شگون ہے کیونکہ روس کی عسکری قوت اور چین کی معاشی قوت مل کر ایشیا کو طاقت کے بڑے اور فیصلہ کن مرکز میں تبدیل کرسکتی ہیں۔ یہ کام ہونا تو ہے تاہم روس کی مدد سے ذرا جلدی ہوجائے گا اور نتائج بھی حوصلہ افزا برآمد ہوں گے۔
اوربان کہتے ہیں کہ روس کی قیادت “انتہائی عقلی” ہے یعنی جو کچھ بھی اس وقت کر رہی ہے وہ محض جذباتیت کا نتیجہ نہیں بلکہ سوچ سمجھ کر تیار کی جانے والی پالیسی اور حکمتِ عملی کے تحت کیا جارہا ہے۔ اُن کی یہ بات بالکل درست ہے کیونکہ عشروں کے انتظار کے بعد اُس نے یہ محسوس کرلیا ہے کہ یورپ اور امریکا اُسے اپنانے اور گلے لگانے کے لیے تیار نہیں ہیں اور یورپ بالخصوص نہیں چاہتا کہ روس کسی بھی سطح پر Euro-centric ہو۔ سبھی کو روس سے بہت ڈر لگتا ہے کیونکہ اُس کا رقبہ بھی بہت زیادہ ہے اور وسائل بھی بہت زیادہ ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ ٹیکنالوجی کے معاملے میں بھی گیا گزرا نہیں۔ وہ خلائی ٹیکنالوجی کے حوالے سے بھی خاصا مستحکم ہے۔
ہنگری کے وزیرِ اعظم مزید کہتے ہیں کہ یوکرین یورپی یونین یا نیٹو کا رکن بننے کا اپنا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں کرسکے گا۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ یوکرین کو نیٹو یا یورپی یونین کا رکن بنانے کا مطلب ہے روس سے براہِ راست اور مکمل مخاصمت مول لینا۔ اس کوئی بھی یورپی ملک روس سے ٹکرانے کے موڈ میں نہیں۔ سب مل کر بھی روس سے لڑ نہیں سکتے کیونکہ اندرونی اختلافات بھی زیادہ اور شدید ہیں۔
یہ نکتہ بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ یوکرین کو نیٹو اور یورپی یونین کی رکنیت دینے کی صورت میں روس کی طرف سے انتقامی کارروائیوں کی صورت میں جس قیمت کا سامنا ہوسکتا ہے اُسے ادا کرنے کی یورپ میں سکت ہے نہ امریکا میں۔
مغرب کی کمزوری کے برعکس عالمی معاملات میں روس کا موقف عقلی اور پیش قیاسی تھا۔ روس نے 2014 میں کرائمیا پر حملے اور قبضے کے بعد مغربی دنیا کی طرف سے عائد کی جانے والی اقتصادی پابندیوں کا ڈٹ کر سامنا کیا ہے۔
اوربان کہتے ہیں کہ روس اگرچہ بنیادی طور پر ہارڈ پاور پر یقین رکھتا ہے تاکہ سوفٹ پاور کے معاملے میں بھی وہ کسی سے پیچھے نہیں۔ اس علم اور عمل دونوں ہی معاملات میں اپنے آپ کو منوایا ہے اور مزید منوانا چاہتا ہے۔ یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ روس نے اپنے آپ کو اخلاقی امور کے حوالے سے بلند رکھنے کی بھی کوشش کی ہے۔ روسی سافٹ پاور کی سب سے مضبوط بین الاقوامی اپیل اس کی LGBTQ کی مخالفت ہے۔
تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں پاکستان کے لیے بھی بہت کچھ ہے کیونکہ وہ ایشیا کی ابھرتی ہوئی قوتوں کے درمیان یا ارد گرد واقع ہے۔ پاکستان کے لیے بہت سے مواقع موجود ہیں مگر اُسے اپنے تمام پتے بہت دانائی سے کھیلنا ہوں گے۔ پاکستان تھوڑا سا متوجہ ہو تو مشرقِ وسطیٰ سمیت کئی خطوں کے مسلم ممالک کو روس اور چین کی اجتماعی قوت کے ذریعے معرضِ وجود میں آتے ہوئے پاور بلاک کی طرف لاسکتا ہے۔ وکٹر اوربان کا اشارہ بھی اِسی طرف ہے۔