خبط عظمت

544

خبط عظمت ایک نفسیاتی بیماری ہے، اگر چہ بیماری کسی کی میراث نہیں لیکن خبط عظمت کا عارضہ کسی زمانے میں شاعروں، ادیبوں سے زیادہ مخصوص سمجھا جاتا تھا۔ لیکن فی زمانہ ’’شاعرانہ طرز احساس‘‘ اتنا عام ہو گیا ہے کہ ڈیڑھ انچ کے سیاستدان اور تین انچ کے کالم نویس بھی خبط عظمت کی چادر لپیٹے پھرتے ہیں۔
ایک صاحب ہیں جن کو گمان ہے کہ ان کے ’’کالمانہ مشوروں‘‘ کے بغیر یہ ملک نہیں چل سکتا۔ انہیں صحافت کا قطب سمجھنا چاہیے۔ ایک اور صاحب ہیں جنہیں اخبار میں شائع ہونے والی ہر اچھی تحریر میں اپنے کالم کی گونج اور اپنے ’’اسلوب فن‘‘ کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ ان کا نعرہ ہے ؎
سارے کالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
ایک اور صاحب ہیں… ان کے بارے میں ہماری رائے کافی اچھی تھی۔ شنید ہے کہ ان کے کالموں کا مجموعہ حال ہی میں شائع ہوا ہے۔ دروغ بر گردن راوی اس مجموعے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ کالم دو سو سال تک زندہ رہیں گے۔ جن صاحب نے ہمیں یہ اطلاع دی وہ کہنے لگے کہ صاحب! دو سو سال تک تو کسی مذہبی فلسفے کے زندہ رہنے کی بھی امید نہیں کی جاسکتی۔ بہر حال مذکورہ دعوے کے تناظر میں ان صاحب کو اردو صحافت کا امام غزالی سمجھنا چاہیے۔ اس لیے کہ جس شخص کی صحافتی تحریر دو سو سال تک زندہ رہے گی وہ امام غزالی سے کیا کم ہوگا؟
یہ ٹھیک ہے کہ شاعروں اور ادیبوں میں خبط عظمت زیادہ ہوتا ہے، لیکن اس کی بھی کچھ بنیادیں ہوتی ہیں اور کوئی داخلی یا خارجی جواز ہوتا ہے۔ لیکن اب اس سلسلے میں کسی بنیاد اور کسی جواز کی کوئی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاسکتی۔ ایک نوجوان شاعر نے اپنے شعری مجموعے کے فلیپ پر فراق کی یہ رائے درج کی ہے ’’اردو غزل اب طویل نیند لے گی اور طویل نیند کے بعد اسے پیدا کرنے والا ایک ایسا شاعر ہوگا جو اپنے خیالات، جذبات اور تمام علائق میں ایک بہت مختلف آدمی ہوگا‘‘۔ اگرچہ فراق کی یہ رائے مذکورہ نوجوان شاعر کے بارے میں نہیں لیکن یہ حقیقت تو عیاں ہے کہ انہوں نے اس رائے کو خود سے منسوب کیا ہے۔ ایک اور صاحب ہیں جو اپنے دوستوں سے پوچھتے رہے ہیں کہ 35 سال کے علامہ اقبال اور 50 سال کے علامہ اقبال میں آپ کا انتخاب کون ہو گا؟ ظاہر ہے کہ 50 سال کے علامہ اقبال حقیقی اقبال ہیں اور 35 سال کے وہ خود مطلب یہ کہ اقبال نے جو کارنامہ پختہ عمر میں انجام دیا مذکورہ صاحب نے وہ صرف 35 سال کی عمر میں خلق کر ڈالا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو انتخاب کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ 35 سال کا اقبال یقینا 50 سال کے اقبال سے بہتر ہے۔ ہمارے ایک عزیز دوست ہیں… انہوں نے ایک سہانی صبح ہمیں بتایا کہ میں خود کو اس صدی کا سب سے بڑا فنکار سمجھتا ہوں۔ انہوں نے یہ بات اتنی سنجیدگی اور ایسی فروتنی سے کہی کہ خاموشی ہمارا فطری انتخاب بن گیا۔
یہاں ایک اور صاحب کا ذکر ضروری ہے ، ہمارے دوست ہیں، بلا کے عالم فاضل اور اتنے مذہبی کہ وہ مزید مذہبی ہونے کی گنجائش محسوس نہیں کرتے ہوں گے۔ ان کی نیت اتنی صاف اور تعلق باللہ اتنا مضبوط ہے کہ وہ جو کچھ دیکھتے ہیں صحیح دیکھتے ہیں، جو کچھ سنتے ہیں صحیح سنتے ہیں۔ جو کچھ سوچتے ہیں صحیح سوچتے ہیں۔ لفظ ’’غلط‘‘ انہوں نے پڑھا ضرور ہے لیکن اپنے بارے میں نہیں۔
یہ صرف چند مثالیں ہیں، ورنہ ایسی مثالوں سے ایک اچھی خاصی ضخیم کتاب تیار کی جاسکتی ہے۔ آپ زندگی کے کسی بھی شعبے اور کسی بھی دائرے کو دیکھ لیجیے، آپ کو خبط عظمت میں مبتلا لوگوں کی بڑی تعداد نظر آجائے گی۔ عظیم رہنما، عظیم شاعر، عظیم اداکار، عظیم سائنسدان، عظیم کھلاڑی، عظیم آدمی، غرضیکہ جدھر جائیے عظمت آپ کے استقبال کے لیے تیار کھڑی ملے گی۔
جہاں تک لکھنے والوں کا تعلق ہے تو ان کے بارے میں سارتر نے ایک اچھی بات کہی ہے، اس نے کہا ہے کہ تخلیق کے لیے ایک طرح کی خود پسندی ضروری ہے۔ لیکن لکھنے والے میں اتنا انکسار بھی ہونا چاہیے کہ وہ اپنی غلطی کو تسلیم کرے اور اپنی ذات کو بھول جائے۔ اگر چہ تخلیق کے حوالے سے خود پسندی کے محرک پر کئی اعتراضات ہو سکتے ہیں لیکن سردست ہم سارتر کی بات کو درست تسلیم کر لیتے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہو گیا ہے کہ لوگ خود پسندی کے دائرے سے باہر نکلتے ہیں نہیں۔ وہ ہر وقت احساس عظمت میں غوطے لگاتے رہتے ہیں جس سے ثابت ہو جاتا ہے کہ اس احساس کا حقیقی سر چشمہ بدترین قسم کا احساس کمتری ہے۔ ایسا احساس کمتری جو عارضی طور پر تخلیق کا محرک بنتا ہے لیکن رفتہ رفتہ تخلیق کے سرچشمے کو خشک کرتا چلا جاتا ہے۔ یہ جو ہمارے یہاں ایک کتاب لکھ کر خاموش ہو جانے کا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے اس کا ایک سبب یقینا خبط عظمت ہے۔
اختر حامد خان نے اپنی کتاب خاکوں کی کتاب ’’چند بزرگ‘‘ کے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ ہم نے انگریزوں سے اشتہار بازی کا فن خوب سیکھا ہے، جس کو استعمال کر کے ہم چھوٹے لوگوں کو بڑا بنا لیتے ہیں۔ لیکن اشتہار بازی کا ایک مطلب اور بھی ہے، اور یہ مطلب کسی بھی داخلی تقاضے اور محرک سے محروم ہونا ہے۔ زیر بحث خبط عظمت داخلی تقاضے محرک اور ہدف سے محرومی اور خارجی حقائق پر بڑھتے ہوئے انحصار کا ثبوت ہے۔ کسی کہنے والے نے کہا ہے کہ پرانی عمارتوں کے سامنے کھڑے ہو کر انسان ان عمارتوں کی طرح خود کو بھی بڑا محسوس کرتا تھا لیکن جدید فن تعمیر میں کوئی ایسی بات ہے کہ جدید عمارتوں کے سامنے کھڑا ہو کر انسان خود کو چھوٹا محسوس کرتا ہے۔ یہ بات بالکل ٹھیک ہے لیکن یہ صرف طرز تعمیر کا مسئلہ نہیں، عصر حاضر کی روح میں ایک ایسی بات ہے کہ وہ جس کو چھوتی ہے چھوٹا بنا دیتی ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو خبط عظمت کی بیماری اتنی عام نہ ہوتی۔