امریکی اخبارات اطلاعات دے رہے ہیں کہ امریکی اس بات کو پسند نہیں کرر ہے ہیں کہ فلسطینیوں کے قتل عام اور ملک بھر میں اسرائیل کے خلاف جاری مظاہروں اور احتجاج بعد نیتن یاہو کو امریکا میں مدعو کر کے اس کا کانگریس سے خطاب انسانی ہمدردی رکھنے والوں کے لیے بہت مایوس کن ہے۔ امریکیوں کا یہی کہنا ہے کہ جنگ بندی تک اسرائیل کے خلاف مظاہرے جاری رکھے جائیں گے۔ امریکا کی 246 سال کی دستوری تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ فلسطین میں 1لاکھ 91 ہزار افراد کو قتل کرنے والے اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو نے 24 جولائی کو امریکی کانگریس سے خطاب کیا۔ یہ خطاب کانگریس کے کئی ارکان کے بائیکاٹ اور فلسطین حامی مظاہروں کی نذر ہو گیا۔ جی ہاں یہ وہی امریکی کانگریس ہے جس کا یہ دعویٰ ہے کہ دنیا بھر میں امریکا انسانی حقوق کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔ دنیا انسانی حقوق کے علمبردار امریکا سے سوال کر رہی ہے کہ امریکا کے کتنے روپ اور بہروپ ہیں جن کو وہ استعمال کرتا ہے اور نہ جانے کب تک کرتا رہے گا۔
وزیراعظم نیتن یاہو اپنے انتہائی متنازع دورے پر گزشتہ پیر کو امریکی دارالحکومت پہنچے، جہاں انہیں اسرائیلی حکومت کی غزہ میں جاری جارحیت کے تناظر میں روزانہ مظاہروں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ آج بھی امریکی انتظامیہ کو اسرائیل سے اس قدر محبت ہے کہ نیتن یاہو جیسے قاتل حکمران کو کانگریس سے خطاب کرانے کے لیے 24 جولائی 2024 سے ایک دن پہلے ہی ’’کیپٹل ہل‘‘ کو جانے والے اکثر راستے بند کر دیے گئے تھے۔ اسی لیے جب مظاہرین 24 تاریخ کی صبح فلسطین کے حق میں احتجاج کرنے کے لیے پہنچے تو کیپٹل ہل کو اونچے جالی دار جنگلوں اور رکاوٹیں لگا کر بلاک کر دیا گیا تھا اور مظاہرے سے خطاب کرنے والے افراد کے پیچھے پولیس کی لمبی قطاریں لگی تھیں۔ اس طرح امریکیوں کے لیے بھی نیتن یاہو کا کانگریس سے خطاب پریشان کن تھا بلکہ امریکی اس بات پر حیران تھے کہ اسرائیلی وزیراعظم جو امریکی عوام کی ایک بڑی تعداد کے مطابق فلسطین میں نسل کشی کے مرتکب ہیں، ان کی حفاظت کے لیے نیو یارک سے سیکڑوں کی تعداد میں پولیس اہلکار کیپٹل ہل لائے گئے۔
24 جولائی کو فلسطینیوں کے قاتل نیتن یاہو کے خلاف پْر امن مظاہرہ جب مارچ میں بدلا اور مظاہرین نے کیپٹل ہل کی جانب چلنا شروع کیا تو پولیس نے انہیں آگے بڑھنے سے روکا لیکن مظاہرین کے نہ رکنے پر آنسو گیس کا استعمال بھی کیا گیا، جبکہ کچھ افراد پولیس کی جانب سے کیے گئے آنسوں گیس کی زد میں بھی آئے۔ ہزاروں کی تعداد میں مظاہرین میں سے چار امریکی شہریوں کو نقص امن کے الزام میں گرفتار بھی کر لیا گیا، البتہ مظاہرہ جاری رہا۔ اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو 24 جولائی 2024 کو واشنگٹن ڈی سی میں امریکی کیپٹل میں کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران نائب صدر کملا ہیرس اور صدر بائیڈن بھی موجود نہیں تھے لیکن نیتن یاہو کے کانگریس سے خطاب سے قبل کملا ہیرس سے تفصیلی ملاقات ہوئی۔ ملاقات میں نیتن یاہو نے اپنی مکمل حمایت کی یقین دھانی کرائی۔
مظاہرے کا اہتمام 20 سے زائد تنظیموں نے کیا تھا جن میں امریکن مسلمز برائے فلسطین، فلسطین یوتھ موومنٹ، یو ایس فلسطینی کمیونٹی، کووڈ پنک، رائٹرز اگینسٹ وار، جیوز فار پیس اور بین الاقوامی صہیونیت مخالف نیٹ ورک شامل ہیں جب کہ مظاہرے سے خطاب کرنے کے لیے معروف امریکی اداکارہ سوزن سرینڈن بھی موقعے پر موجود تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطین میں امن کے بغیر دنیا بھر میں امن قائم کرنا ناممکن ہے۔ امریکی فلسطین میں فوری اور غیر مشروط جنگ بندی چاہتے ہیں اسی لیے وہ مظاہرے میں شرکت کے لیے عوام امریکا کی دور دراز ریاستوں سے آئے تھے۔ مظاہروں شریک یہودیوں کا کہنا تھا کہ بطور یہودی یہی سمجھتے ہیں کہ امریکی حکومت کو اسرائیلی حکومت کو دی جانے والی ہر قسم کی جنگی امداد فوری طور پر روکنی چاہیے کیونکہ یہ اسلحہ معصوم فلسطینی بچوں کے قتل عام کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ مظاہرے میں وزیراعظم نیتن یاہو کے بڑے بڑے کٹ آؤٹس بھی لگائے گئے تھے، جن کے سامنے فلسطینی شہریوں کے علامتی تابوت رکھے گئے تھے۔ مظاہروں میں یہودی گروپ بھی فلسطین کے حق میں پوسٹرز لیے کھڑے تھے جو اسرائیلی حکومت کے سخت مخالف سمجھے جاتے ہیں۔ مجموعی طور پر کانگریس میں موجودگی کے دوران نیتن یاہو کی پزیرائی کی گئی لیکن بہت سے کانگریس مین خطاب میں شریک نہیں ہوئے۔ نیتن یاہو نے اپنی تقریر میں احتجاج کرنے والوں کو اپنے کردار پر شرمسار ہونے کا مشورہ بھی دیا، جس پر انہیں انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
ہزاروں افراد اس وقت تک نیتن یاہو کے خلاف اور عالمی عدالت کے فیصلے کے تحت ان کی گرفتاری کا نعرہ لگاتے رہے، اسرائیلی وزیراعظم نے 100 کے قریب کانگریس مین اور نائب امریکی صدر کملا ہیرس کے بائیکاٹ کے باجود اپنا خطاب مکمل کر لیا۔ سوال یہ ہے کہ ان برے حالات میں نیتن یاہو امریکا کے دورے کا اصل مقصد کیا ہے اس سلسلے میں وائس آف امریکا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’عام طور پر ری پبلکن اسرائیل کے سیکورٹی ایجنڈے کی زیادہ حامی ہے۔ اگرچہ عوامی طور پر نیتن یاہو ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار نائب صدر کملا ہیرس اور ری پبلکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ہونے والے ممکنہ مقابلے میں غیر جانب داری کا مظاہرہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ نیتن یاہو اسرائیلی مفاد کے تحت کسی ایک پارٹی کی حمایت کر رہے ہیں۔
اسرائیلی یہ سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ ہی ہیں جن کی انتظامیہ اسرائیل نواز پالیسیاں بہت غیر معمولی انداز سے آگے بڑھا رہی تھی۔ ٹرمپ نے اپنے دورِ صدارت میں ’ابراہم اکارڈ‘ کی مدد سے اسرائیل کے لیے طویل ترین سفارت کاری کرتے ہوئے ثالثی کی جس کے تحت اسرائیل اپنے کچھ عرب پڑوسیوں متحدہ عرب امارات، بحرین، اومان اور شمالی افریقا میں مراکش کے ساتھ سفارتی تعلقات کو معمول پر لایا۔ ٹرمپ نے تل ابیب سے امریکی سفارت خانہ بھی متنازع علاقے یروشلم میں منتقل کیا اور گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کے الحاق کو تسلیم کیا۔ امریکا میں رہتے ہوئے نیتن یاہو ٹرمپ سے ملاقات کرنے کی درخواست کر رہے ہیں جس کا مقصد دنیا کو یہ بھی بتانا ہے کہ ان کے اور سابق صدر ٹرمپ کے درمیان کوئی کشیدگی نہیں پائی جاتی ہے۔ ٹرمپ اور نیتن یاہو کے درمیان اس وقت اختلاف شروع ہوا جب نیتن یاہو نے بائیڈن کو 2020 میں ان کی جیت پر مبارک باد دی تھی۔ اب ٹرمپ نے اسرائیل کو خبردار بھی کیا ہے کہ وہ امن کی طرف واپس لوٹے اور لوگوں کی اموات روکے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکا میں کملا ہیرس یا ٹرمپ میں کوئی بھی جیتے اسرائیل امریکا کی خارجہ پالیسی میں اہم تھا اور رہے گا۔