کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے

335

ہمارے دوست کہتے ہیں کہ عدالت عظمیٰ کے حالیہ فیصلے نے فارم 47 کی بنیاد پر بننے والی جعلی حکومت پر لرزہ طاری کردیا ہے، اس کی ’’کانپیں ٹانگ‘‘ رہی ہیں اس کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ ایسا کیا کرے کہ سانپ بھی مر جائے، لاٹھی بھی نہ ٹوٹے لیکن یوں لگ رہا ہے کہ سانپ مرے نہ مرے لاٹھی ضرور ٹوٹ جائے گی۔ لاٹھی سے پہلی ضرب یہ لگائی گئی تھی کہ حکومت نے تحریک انصاف پر پابندی لگانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ وزیر اطلاعات نے جونہی یہ پریس کانفرنس کی ہر طرف شور مچ گیا اور اس قدر مذمتی بیان آئے کہ وزیر اطلاعات کے لیے جان چھڑانا مشکل ہوگیا۔ ایسے میں وزیر خارجہ جو نائب وزیراعظم ہونے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں، وزیر اطلاعات کی مدد کو آئے اور یقین دلایا کہ تحریک انصاف پر پابندی لگانے کا ابھی فیصلہ نہیں ہوا، یہ فیصلہ اتحادی جماعتوں سے مشاورت کے بعد کیا جائے گا۔ پیپلز پارٹی حکومت کی سب سے بڑی اتحادی جماعت ہے، وہ برسرعام اس فیصلے کی مخالفت بلکہ مذمت کرچکی ہے۔ زرداری تو یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ اگر مسلم لیگ (ن) سے حکومت نہیں چل رہی تو وہ حکومت سے الگ ہوجائے۔ زرداری کرسی صدارت پر فائز ہیں، انہیں معلوم ہے کہ کوئی بھی حکومت آئے خواہ وہ عمران خان کی حکومت ہی ہو، وہ بہرکیف اپنے منصب پر برقرار رہیں گے اور پانچ سال تک کوئی انہیں صدارت سے نہیں ہٹا سکے گا۔
حکومت پیچ و تاب تو بہت کھا رہی ہے لیکن اس کا بس نہیں چل رہا اس پیچ و تاب کا اندازہ ملکہ پنجاب محترمہ مریم نواز کے اس بیان سے لگایا جاسکتا ہے جس میں انہوں نے تحریک انصاف کے حق میں فیصلے دینے والے ججوں پر کڑی تنقید کی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ موجودہ حکومت اپنے پانچ سال پورے کرے گی۔ وہ یہ دعویٰ کرتے ہوئے بھول گئی ہیں کہ خود ان کی حکومت فارم 47 کی کمزور بنیادوں پر قائم ہے اگر ووٹوں کی بنیاد پر امیدواروں کو کامیاب قرار دینے کا سلسلہ شروع ہوگیا تو مریم نواز صاحبہ کو سرچھپانے کی جگہ بھی نہیں ملے گی۔ ان کے والد بزگوار بھی پیج و تاب کھا رہے ہیں کہ طاقتوروں نے ان سے کیا گیا وعدہ پورا نہیں کیا۔ انہیں لندن سے اس یقین دہانی کے ساتھ وطن واپس لایا گیا تھا کہ ان کے راستے کی ساری رکاوٹیں دور کردی جائیں گی۔ ان کے سیاسی حریف کا صفایا کردیا جائے گا، انہیں نمائشی انتخابات کے ذریعے پارلیمنٹ میں قطعی اکثریت طشتری میں رکھ کر پیش کی جائے گی پھر ان کے سر پہ چوتھی بار وزارت عظمیٰ کا تاج سجایا جائے گا لیکن ان میں سے کوئی وعدہ پورا نہ ہوا۔ البتہ صاحبزادی کو پنجاب میں وزیراعلیٰ بنا کر کچھ اشک شوئی ضرور کی گئی۔ لیکن طاقتور حلقوں کا کہنا ہے کہ ہم نے مُردے میں جان ڈالنے اور اس کے سیاسی حریف کو ملیامیٹ کرنے کی اپنی بساط سے بڑھ کر کوشش کی لیکن نہ مردہ ہمارے مصنوعی تنفس سے حرکت میں آسکا نہ اس کا سیاسی حریف ہماری تمام تر ظالمانہ کوششوں کے باوجود بے حرکت ہوسکا۔ وہ جیل میں ہے اس پر دو سو سے زیادہ مقدمات بنادیے گئے ہیں اور کئی مقدمات میں اسے طویل المیعاد سزائیں بھی دے دی گئی ہیں، لیکن اس کے کَس بَل میں کوئی فرق نہیں آیا، وہ مقتدر سے کسی قسم کے مذاکرات کرنے کو تیار نہیں ہے، اس کا صرف ایک مطالبہ ہے کہ عوام کا مینڈیٹ واپس کیا جائے۔
ہمارے دوست کہتے ہیں کہ عوام کا مینڈیٹ تسلیم کرنے اور اسے حقداروں کو واپس کرنے ہی میں موجودہ ظالمانہ بندوبست کی موت ہے۔ جن طاقتوروں نے یہ بندوبست کیا ہے وہ نہیں چاہتے کہ یہ بندوبست ناکام ہوجائے۔ جن لوگوں کو اس بندوبست کا رکھوالا بنایا گیا ہے وہ طاقتوروں سے زیادہ اسے برقرار رکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں ان کی سیاسی زندگی کا مدار ہی اس بات پر ہے کہ عوام کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کیا جائے اور طاقتوروں کے بوٹ چاٹ کر انہیں اپنی وفاداری کا یقین دلایا جائے۔ اب مارشل لا کا زمانہ نہیں رہا، دنیا مارشل لا سے بہت آگے نکل آئی ہے اس لیے اب ایمرجنسی پلس کی باتیں ہورہی ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر عملدرآمد کو روکنے کے لیے ایمرجنسی پلس سے کام لیا جائے گا اور عوامی مینڈیٹ کو آہنی ہاتھوں سے روکا جائے گا۔ سیانے کہتے ہیںکہ امریکا کے تیور بھی موجودہ بندوبست کے حق میں نہیں ہیں۔ امریکی کانگریس نے اس بندوبست کے خلاف بھاری اکثریت سے قرارداد منظور کرکے اس پر اپنے عدم اعتماد کا اظہار کردیا ہے۔ یہ قرار داد ہی طاقتوروں اور ان کے پٹھوئوں کو حواس باختہ کرنے کے لیے کافی تھی کہ اس پر ستم یہ ہوا ہے کہ جوبائیڈن نے امریکی صدارتی انتخاب کی دوڑ سے باہر نکلنے کا اعلان کردیا ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی میں کوئی شبہ باقی نہیں رہا۔ کہا جارہا ہے کہ عمران خان کی جیل سے رہائی ایک ٹیلی فون کال کے فاصلے پر ہے۔ ٹرمپ صدر بننے کے بعد پاکستانی طاقتوروں کو ایک ٹیلی فون کال کریں گے اور عمران خان جیل سے باہر آجائیں گے۔ بعض معترضین پوچھتے ہیں کہ امریکا ہی نے عمران خان کو ہٹانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ خان کو رہا کرانے کے لیے میدان میں آجائے لیکن ہمارے دوستوں کا کہنا ہے کہ امریکا کی نہ دشمنی پائیدار ہوتی ہے نہ دوستی۔ وہ وقت کے ساتھ ساتھ پینترے بدلتا رہتا ہے۔ پاکستان کے بارے میں اس کی مستقل پالیسی یہ ہے کہ وہ یہاں کئی گھوڑوں پر دائو لگاتا ہے جو گھوڑا بھی جیتتا ہے اس کا اپنا گھوڑا ہوتا ہے۔ عمران خان اسے لاکھ ’’ایبسلوٹلی ناٹ‘‘ کہیں لیکن اس کے دائرہ اثر سے باہر نہیں ہیں۔ ٹرمپ تو یوں بھی ان کے دوستوں میں شمار ہوتے ہیں۔
بہرکیف طاقتور حلقے اور ان کے پٹھو سیاستدان سب گھبرائے ہوئے ہیں اور غالب کی زبان میں یہ گلہ کررہے ہیں۔
نکتہ چیں ہے غم دل اس کو سنائے نہ بنے
کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے