سستی بجلی مگر کیسے

326

وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت نے آئی پی پیز کو کھربوں روپے کی کیپسٹی پیمنٹس کے خلاف عدالت عظمیٰ جانے کا اعلان کردیا۔ سابق نگراں وفاقی وزیر تجارت گوہر اعجاز نے کہا ہے کہ حکومت کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ 24 کروڑ پاکستانیوں کی بقاء زیادہ اہم ہے یا 40 خاندانوںکے لیے یقینی منافع۔ سابق وزیر کا کہنا تھا کہ وہ خوشحالی کے لیے صرف بدانتظامی کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ مہنگی بجلی تمام پاکستانیوں کے لیے ناقابل برداشت ہوچکی ہے۔ چند روز قبل گوہر اعجاز نے وفاقی وزیر بجلی اویس لغاری سے انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کو کی گئی ادائیگیوں کا ریکارڈ مانگا تھا جو ابھی تک فراہم نہیں کیا گیا۔ ایوان صدر، وزیر اعظم ہائوس، اور صوبوں کے وزرائے اعلیٰ ہائوس اور گورنر ہائوس سمیت دیگر وزراء کو ملنے والی مراعات اور شاہانہ اخراجات میں نمایاں کمی کی جائے۔ چارٹرڈ آف ڈیمانڈ میں مطالبہ کیا گیا کہ کم آمدنی اور تنخواہ دار طبقے پر بالواسطہ ٹیکسوں کا مزید بوجھ ڈالنے کے بجائے اشرافیہ کے ٹیکسوں میں اضافہ کیا جائے۔
یہ اعلامیہ ایک ایسے وزیر ِ صنعت و تجارت کا ہے جو اب ’’سابق‘‘ ہو چکے ہیں۔ پاکستان کا ایک بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ اس ملک کے جتنے بھی ’’سابقین‘‘ ہیں، خواہ وہ وزراء و وزرائے اعظم ہوں، جنرل ہوں، آئی ایس آئی کے سربراہان ہوں، سالار ہوں یا ملک کے تمام اعلیٰ اداروں پر فائز اعلیٰ عہدیدار، ان سب کو نظام میں خامیاں ’’سابق‘‘ ہو جانے کے بعد ہی نظر آتی ہیں۔ ان سب کا علاج یہ ہے کہ جن جن خامیوں، کمزوریوں اور بد انتظامیوں کا یہ ذکر کر تے نظر آئیں اور یہی ساری خامیاں، کمزوریاں اور بد انتظامیہ ان کے اپنے ادوار میں بھی اسی طرح جاری ساری رہی ہوں تو ان سب کے ہونٹوں پر الفیاں ڈال کر آپس میں جوڑ دیا جائے اور ان کو ان کی اپنی ساری غفلتوں پر آئین و قانون کے مطابق سزائیں دی جائیں اور اگر آئین میں اس سلسلے میں کوئی خاموشی پائی جاتی ہو تو فوری طور پر آئین سازی کرکے جو سزا مقرر کی جائے وہ کم از کم سزائے موت کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہونی چاہیے۔ نہ جانے کیا بات ہے کہ اپنے دور میں تو ان کو اپنے اپنے اداروں میں کوئی بھی بات غلط ہوتے ہوئے بھی غلط نہیں دکھائی دیتی لیکن جوں ہی یہ ’’سابق‘‘ ہوتے ہیں، ان کو دوسروں کی آنکھوں میں پڑے ہوئے تنکے تک صاف صاف دکھائی دینے لگتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک طویل عرصے سے پاکستان میں 40 خاندانوں کو خوش رکھنے کے لیے سارے پاکستانیوں کا لہو نچوڑا جا رہا ہے لیکن سارے لہو نچوڑنے والے اپنے اپنے دورِ اقتدار میں عام لوگوں کے خون سے بھرے جام بغیر ہچکیاں لیے چڑھاتے رہے ہیں۔ آج جو ’’موجودہ‘‘ ہیں، ان کی کوئی آواز کیا آہٹ تک اس بد انتظامی اور کرپشن پر نہیں سنائی دے رہی لیکن جونہی آج کے موجودہ کل کے ’’سابقین‘‘ میں شمار ہو نے لگیں گے، ان کو ہر ہر بات صاف صاف نظر آنے لگے گی۔
بجلی کے بڑھتے ہوئے شدید جھٹکوں پر کیا سیاستدان اور کیا دیگر ’’سابقین‘‘ و مبصرین چیخ چلا رہے ہیں ان کا چیخنا چلانا سماعتوں کو بہت بھلا تو لگتا ہے لیکن سننے والوں کو معلوم ہے کہ یہ سب باتیں یا تو ان کو بری لگتی ہیں جو اب اقتدار یا کسی اہم عہدے پر فائز نہیں یا پھر ان پارٹیوں کے حامیوں کو جن کے سربراہان کو دودھ کی مکھی کی طرح نکال کر پھینک دیا جاتا ہے۔ ہم دور نہیں جاتے۔ اس حکومت سے پہلے جن ’’لاڈلوں‘‘ کی حکومت تھی ان کی پارٹی کے سارے چیلے بجلی اور پٹرول کے مہنگے پر مہنگا ہو جانے پر کہا کرتے تھے کہ بجلی خواہ 200 روپے یونٹ ہو جائے یا پٹرول 1000 روپے لیٹر ہی کیوں نہ ہو جائے ہم ’’خوبصورت‘‘ لیڈر کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ موجودہ والوں کو گزشتہ کی مہنگائی پہاڑ لگتی تھی لیکن آج کی پہاڑ جیسی بلند و بالا مہنگائی ان کو اس لیے رائی کا دانہ لگ رہی ہے کہ حکمرانی ان کی ’’پسند‘‘ کے لیڈروں کی ہے۔
یہ تو ہوئی پسند نہ پسند کی بات، لیکن سچی بات یہ ہے کہ پاکستان کے کسی بھی لیڈر یا سیاسی جماعت کے پاس شاید اب کسی بھی مسئلے کا حل رہ ہی نہیں گیا اس لیے کہ جو چاہے کتنی بھی اکثریت کے ساتھ اقتدار پر براجمان کیوں نہ ہو جائے، خفیہ طاقتوں کی مرضی و منشا کے بغیر واش روم تک بھی نہیں جا سکتا۔
کہتے ہیں کہ ’’آئی پی پیز‘‘ سے کیے سارے معاہدے منسوخ کیے جائیں۔ مان لیں کہ منسوخ ہو گئے۔ آئی پی پیز کو حکومت ٹیک اوور کرلے، مان لیں کے ٹیک اور کر لیا۔ دونوں مطالبات مان لینے سے کیا بجلی سستی ہو جائے گی۔ پھر یہ کہ کمپنیوں سے معاہدے منسوخ کر بھی لیے جائیں تو پاکستان کے کسی گوشے میں بھی فرشتے نہیں بستے اور رہی حکومت کے ٹیک اور کرنے کی بات تو ہر وہ ادارہ، محکمہ، ملیں کارخانے، اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں میں کیا حکومت کی کارکردگی قابل ِ اطمینان رہی ہے؟۔
؎؎
ہر وہ ادارہ یا محکمہ جسے ’’قومیایا‘‘ گیا وہ تباہی و بربادی کا اعلیٰ ترین نمونہ بنا ہوا نظر آتا ہے تو آئی پی پیز بھی بھوت بنگلہ ہی بن کر رہ جائے گی۔
توانائی کے ہر شعبے کے لیے ضروری ہے کہ اس کو فراہم کیا جانے والا ایندھن سستا ہو۔ خواہ وہ پانی ہو، پٹرولیم مصنوعات ہوں یا گیس، جب ایندھن کی قیمتیں آسمانوں کو چھو رہی ہوں گی تو کوئی غیبی طاقت ہی اس ایندھن سے سستی تونائیاں فراہم کرسکتی ہے۔
حل صرف یہی ہے کہ ان ممالک سے ایندھن خریدا جائے جو نہایت ارزاں قیمت پر فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ کرپشن کا علاج تو سزائے موت ضرور ہو سکتی ہے لیکن سستی بجلی اسی وقت حاصل ہو سکے گی جب ایندھن سستا ہو۔ باقی یہ کہ پاکستان میں چیخنے چلنے پر کہیں سے کہیں تک کوئی پابندی تو ہے نہیں۔ چلائیں، اتنا چلائیں کہ گلے کے سارے پردے پھٹ جائیں مگر سستی توانائی حاصل کرنے کا حل سستے ایندھن کی فراہمی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔