آئی پی پیز، عوام کے خون کی پیاسی

325

مجھے پتا ہے ملک کا 98 فی صد غیر مراعات یافتہ آئی پی پیز کے ہاتھوں یرغمال ہے اور ملک کا 2 فی صد مراعات یافتہ طبقہ اُن کی سرپرستی کرکے ارب پتی بن چکا ہے، یہ سلسلہ آج سے نہیں برسوں سے چل رہا ہے۔ کے الیکٹرک نے تو اربوں کا کاپر اُتار کر فروخت کردیا، حصہ سب کو ملا اور اب تک سب حصے دار ہیں سوائے جماعت اسلامی کے جو آج بھی ان کا مقابلہ کررہی ہے۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن ڈی چوک پر عوامی دھرنا دے رہے ہیں، انہوں نے جائز مطالبات حکومت کے سامنے رکھ دیے ہیں 10 روپے فی یونٹ گھریلو صارفین اور 15 روپے فی یونٹ کمرشل صارفین بغیر کسی سلیب اور بل پر ہر طرح کے ٹیکس ختم کیے جائیں۔ یہ آواز حافظ صاحب کی نہیں بلکہ ملک کے 98 فی صد غیر مراعات یافتہ طبقے کی ہے، بس اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ جماعت اسلامی کا بھرپور ساتھ دیا جائے نہیں تو ملک کا یہ طبقہ بے موت مرجائے گا جس کی ذمے دار حکومت، آئی ایم ایف اور آئی پی پیز ہوں گے۔ پوری دنیا میں اتنی مہنگی بجلی کسی ملک میں نہیں ہے۔ بھارت تو ہمارے برابر میں ہے وہاں کبھی عوام نے بجلی کے بل کی شکایت نہیں کی نہ وہاں کی حکومت نے بجلی کو کاروبار بنایا نہ وہاں کوئی حکومتی وزیر بجلی کے کرپشن میں ملوث ہے۔ ہمارے ملک کے تو حاکم، اپوزیشن، بیوروکریٹ سب کے سب اس میں ملوث ہیں، ہمارے ملک میں بجلی منافع بخش تجارت بن چکی ہے۔

آئی ایم ایف نے حکومت کو امیروں پر ٹیکس لگانے کو کہا تھا مگر اس نااہل حکومت نے وہ تمام ٹیکس غریبوں اور مڈل کلاس طبقے پر ڈال دیا۔ اب تو گیس والوں نے بھی رنگ بدلنا شروع کردیا جو بل 250 روپے ماہانہ آتا تھا اب ایک ہزار سے اوپر جاچکا ہے۔ حال ہی میں میرا بل جو 300 یونٹ کے قریب تھا اچانک 760 یونٹ کا آگیا، 48 ہزار کا میں کے الیکٹرک کے دفتر پاور ہائوس پر شکایت کرنے چلا کیا وہاں لوگوں کی لمبی قطار تھی ہر دوسرے آدمی کا بل ڈبل آیا ہوا تھا، سیکورٹی گارڈ سے لے کر افسران تک سب فرعون بنے بیٹھے تھے، پانی تک کا انتظام نہیں تھا، ٹھیک سے بات سننے کو کوئی تیار نہیں تھا، خیر جب میرا نمبر آیا تو فرمایا ہم کیا کریں بجلی استعمال کرو گے تو بل تو دینا ہوگا۔ میں نے کہا کہ برسوں سے میں بروقت بل ادا کرتا ہوں یہ بل بہت زیادہ ہے۔ تو فرمانے لگے میں کیا کروں جو میٹر بتارہا ہے اس کی بنیاد پر بل آیا ہے۔ میں نے عرض کی جناب آپ ٹیم بھیج کر چیک تو کروالیں فرمایا آپ جائیں وقت ضائع نہ کریں، قرض لے کر بل ادا کریں۔ ان فرعون نما افسران کو دیکھ کر دل سے ان کے لیے بددعا نکلی اللہ اس ادارے کو تباہ و برباد کردے۔ افسوس کے سب اردو بولنے والے تھے، غیر مقامی نہیں تھے، بجلی کی اس غیر قانونی تجارت کو فوری بند کیا جائے مگر ایسا ہوگا نہیں کیونکہ یہ وہ حمام ہے جس میں حکمرانوں سے لے کر ہر مراعات یافتہ ننگا ہے، مفادات جڑتے ہوئے ہیں۔

قارئین 2015ء میں بجلی کی پیداوار 20 ہزار میگاواٹ جبکہ کھپت 13 ہزار میگاواٹ تھی اور حکومت آئی پی پیز کو کیپسٹی سرچارج کی مد میں سالانہ 200 ارب روپے کی ادائیگی کررہی تھی۔ 2024ء میں آئی پی پیز سے بجلی کی پیداوار 43400 میگاواٹ تک پہنچ گئی لیکن بجلی کی ترسیل کا جدید نظام نہ ہونے کے باعث کھپت وہی 13 ہزار میگاواٹ ہے مگر اب ہم آئی پی پیز کو 60 فی صد کیپسٹی سرچارج کی مد میں 2000 ارب روپے کی ادائیگی کررہے ہیں جس کی وجہ سے پاور سیکٹر کے گردشی قرضے

2655 ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں، صرف چائینز آئی پی پیز کے بقایا جات 2 ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں۔ وزیراعظم صاحب نے ان قرضوں کو موخر کرنے کی درخواست تو کی ہے اللہ کریں یہ قرضے ختم ہوجائیں اور چین کو پاکستانی عوام پر رحم آجائے۔ دراصل آئی پی پیز کے گردشی قرضے معیشت پر ناقابل برداشت بوجھ اور فنانشل رسک بن گئے ہیں جس کے باعث بجلی کے نرخوں میں گزشتہ دو ماہ کے دوران 3 بار بڑا اضافہ کیا جاچکا ہے جو ناقابل برداشت 76 روپے کلوواٹ تک پہنچ چکے ہیں اور غریب اور متوسط طبقے کے لیے بجلی کے بلوں کی ادائیگی مشکل ہوگئی ہے۔ بجلی کی اصل پیداواری لاگت 8 سے 10 روپے فی یونٹ ہے جبکہ ڈسکوز کے اخراجات 5 روپے اور کیپسٹی سرچارج 18 روپے فی یونٹ ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے ہمیں بجلی کی اضافی پیداوار کو روک کر ترسیلی نظام کو بہتر بنانا ہوگا تاکہ پیدا کی جانے والی اضافی بجلی استعمال کی جاسکے اور ہم آئی پی پیز کو بجلی خریدے بغیر کیپسٹی سرچارج کی مد میں اربوں روپے کی ادائیگیوں سے بچ سکیں، جن آئی پی پیز کی پرانے معاہدوں پر تجدید کی ہے اس کو ختم کریں، تمام آئی پی پیز کا فرانزک آڈٹ کرایا جائے اوور بلنگ اور کرپشن میں ملوث آئی پی پیز سے ریکوری کرکے ان کے معاہدے کو منسوخ کیے جائیں۔ بقول ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ آئی پی پیز معاہدوں میں بجلی خریدنے کے لیے کیپسٹی سرچارج کے بجائے مقابلاتی آفر رکھی جائے جسے 2020ء میں نیپرا منظور کرچکی ہے جس سے کیپسٹی سرچارج کی مد میں اربوں روپے کے جرمانے اور پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔

پاکستان کی بے شمار صنعتیں مہنگی بجلی کی وجہ سے بند ہوچکی ہیں جس سے ایکسپورٹس میں کمی اور بیروزگاری میں بے پناہ اضافہ ہورہا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے بجلی گھروں حب کول، ساہیوال کول اور بن قاسم کول جو 2 سال سے بند پڑے ہیں لیکن حکومت انہیں بھی 60 فی صد کیپسٹی سرچارج کی ادائیگی کررہی ہے جو گردشی قرضوں میں تیزی سے اضافہ کررہا ہے۔ 1991ء میں پاکستان میں 60 فی صد بجلی پانی سے پیدا کی جاتی تھی جو اب کم ہو کر 26 فی صد رہ گئی ہے، ہم مہنگے امپورٹڈ فیول سے بجلی پیدا کرنے والی آئی پی پیز کے چنگل میں پھنس چکے ہیں ہمیں اگر سستی بجلی پیدا کرنی ہے تو زیادہ سے زیادہ ڈیمز بنانے ہوں گے اور متبادل توانائی سے سستی بجلی پیدا کرکے توانائی کے شعبے میں پاکستان کا مالیاتی رسک محدود کرنا ہوگا جس کے لیے اس شعبے میں فوری اصلاحات ناگزیر ہوگئی ہیں۔ حکومت کو فوری فیصلہ کرنا ہے کہ 45 آئی پی پیز کے مفادات کو تحفظ دینا ہے یا 240 ملین عوام کو۔ مگر ان حکمرانوں نے تو قسم کھا رکھی ہے کہ عوامی مفاد کا کوئی کام ان کو کرنا ہی نہیں ہے۔ اس مرتبہ جب سرکاری ملازمین کی تنخواہ آئے گی تو اس میں ایک ہزار سے 5 ہزار تک مزید ٹیکس کٹ کر آئے گا ویسے ہی سرکاری ملازمین بڑی مشکل سے اپنا گزارہ کرپاتے ہیں ان پر مزید بوجھ ڈالنا کون سا انصاف ہے جس کی تنخواہ 2 لاکھ سے اوپر ہوں اس پر ٹیکس کاٹا جائے اس وقت ملک کا ہر شہری ٹیکس ادا کررہا ہے، ہر بل پر ٹیکس، ہر خریداری پر ٹیکس، ہوٹل پر کھانا کھائے تو ٹیکس، بیکری سے کچھ خریدے تو ٹیکس، ارے ٹیکس لگانا ہے تو سرمایہ داروں، وڈیروں، چودھریوں، زمینداروں، فیکٹریوں کے مالکان پر ٹیکس لگائو۔ اپنے پروٹوکول کو ختم کرو، غیر ضروری ترقیاتی کاموں کو بند کرو، غیر ضروری محکموں کو بند کرو، نہیں کرسکتے تو قوم کی جان چھوڑ کیوں نہیں دیتے، اتنا ملک کو لوٹ چکے ہو مگر تمہاری ہوس ہے کہ ختم نہیں ہوتی، تم اللہ کے عذاب سے بچ نہ پائو گے۔