جاپان اور روس کے درمیان کشیدگی اور متنازع امور انیسویں صدی کے وسط ہی سے موجود ہیں، جن کا تعلق علاقائی کنٹرول کے معاملات سے ہے۔ ان تنازعات کی ابتدا 1855 میں شیموڈا معاہدے سے شروع ہوتی ہے، جس کے تحت جاپان اور روس کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہوئے اور دونوں ممالک کی سرحدوں کا تعین ہوا۔ شیموڈا معاہدے کے مطابق ایٹوروف (Etorofu) جزیرہ جاپان کا اور اوروپ (Urup) جزیرہ روس کا حصہ قرار پایا۔ جبکہ کنشیر (Kunashir) اور شیکوٹان (Shikotan) جزائر کو جاپان کا حصہ قرار دیا گیا۔ تاہم، اس معاہدے میں کوریل جزائر کی سرحدوں کے بارے میں تفصیلات مبہم تھیں، جس نے دونوں ممالک کے درمیان مستقبل کے تنازعات کی بنا رکھی۔ مزید برآں اس معاہدے میں سخالین (Sakhalin) جزیرے کو دونوں ممالک کی مشترکہ ملکیت قرار دیا گیا تھا لیکن سخالین کی آبادکاری کے حوالے سے بھی معاہدے میں واضح قواعد و ضوابط مقرر نہیں کیے گئے تھے، لہٰذا بعد میں سخالین بھی دونوں ممالک کے درمیان تنازعے کا سبب بنا۔ اس تنازعے کا سب سے اہم موڑ 1904-1905 کی روس جاپان جنگ کے دوران آیا۔ جس میں جاپان نے روس کو شکست دے دی۔ اس فتح نے جدید تاریخ میں پہلی بار ایک ایشیائی طاقت یورپی طاقت پر غالب آئی۔ بعد میں جب پورٹس ماؤتھ معاہدے کے تحت یہ جنگ ختم ہوئی تو جاپان کا سخالین جزیرے کے جنوبی نصف حصے پر کنٹرول تسلیم کرلیا گیا۔ یہ فتح جاپان کے لیے انتہائی اہم تھی، جس نے اس کی عالمی حیثیت اور علاقائی ساکھ کو مزید مضبوط کیا، لیکن ساتھ ہی اس فتح نے مستقبل کے تنازعات کے بیج بھی بو دیے۔
1945 کی یالٹا کانفرنس میں اتحادیوں نے دوسری جنگ عظیم میں سوویت یونین کو شرکت پر آمادہ کرنے کی غرض سے کوریل جزائر پر سوویت یونین کے دعووں کو تسلیم کیا اور جب دوسری عالمی جنگ میں جاپان کو شکست ہوئی تو جنگ کے اختتام پر سوویت یونین نے کوریل جزائر پر قبضہ کر لیا، جو 1855 سے جاپان کے زیر انتظام تھے۔ تاہم، جاپان آج تک روس کے اس دعوے کو چیلنج کرتا ہے، جاپان کا کوریل میں واقع چار جنوبی جزائر (اتورپ، کناشیری، شیکوتان، اور ہابومائی) پر دعویٰ ہے کہ یہ اس کی حدود میں شامل ہیں جنہیں وہ شمالی علاقہ جات کہتا ہے۔
کوریل جزائر کی غیر متعین حیثیت کا تنازع اتنا شدید ہے کہ اس کی وجہ سے روس اور جاپان کے درمیان دوسری عالمی جنگ کے بعد سے ایک باضابطہ امن معاہدے پر دستخط نہیں ہوسکے۔ جاپانی بیانیے کے مطابق ان شمالی علاقہ جات کی واپسی نہ صرف اس کی علاقائی سالمیت کا معاملہ ہے بلکہ تاریخی ناانصافیوں کی اصلاح بھی ہے۔ جاپانی حکومت اور عوام سوویت یونین کی طرف سے ان جزائر پر قبضے کو ایک تاریخی غلطی اور غیر قانونی عمل سمجھتے ہیں جسے درست کرنا ضروری ہے۔ آئیں اب کوریل جزائر کی اہمیت کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ کوریل جزائر بحر الکاہل میں اسٹرٹیجک طور پر واقع ہیں، لہٰذا یہ جاپان اور روس دونوں کے لیے یکساں اہمیت کے حامل ہیں۔ ان جزائر کی ملکیت جہاں روس کو عسکری فائدہ اور ماہی گیری کے لیے زرخیز علاقوں تک رسائی فراہم کرتی ہے وہیں جاپان کے لیے، ان جزائر کی تزویراتی حیثیت ہے۔ اور اب جبکہ یہ جزائر روسی کنٹرول میں ہیں جاپان کے فوجی علاقوں کی ان جزائر سے قربت اس کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں اور اس کے خطے میں جاپانی اثر رسوخ کو محدود کرتے ہیں۔
ان جزائر پر کنٹرول کا ایک اور اہم پہلو دونوں ممالک کے اقتصادی مفادات بھی ہیں۔ متنازع جزائر کے گرد واقع سمندری علاقہ سمندری وسائل اور ممکنہ زیر آب تیل اور گیس کے ذخائر سے مالا مال ہے اور ان وسائل پر کنٹرول دونوں ممالک کے لیے اقتصادی طور پر انتہائی اہم ہے، خصوصاًجاپان کے لیے جو درآمدی توانائی پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔ اس سلسلے میں روسی نقطہ ٔ نظر یہ ہے کہ کوریل جزائر دوسری عالمی جنگ کی حاصل کردہ غنیمت ہیں، جو یالٹا کانفرنس میں اتحادی طاقتوں کے درمیان طے پائی تھیں۔ روس ان جزائر کو اپنی قومی سلامتی کے لیے اہم سمجھتا ہے، جو اس کو ایک اسٹرٹیجک بفر زون فراہم کرتے ہیں اور اس کی بحر الکاہل کی ساحلی پٹی کی حفاظت کرتے ہیں۔ اقتصادی طور پر، جزائر قیمتی وسائل پیش کرتے ہیں اور روس کی ماہی گیری کی صنعت کے لیے اہم ہیں۔ روس ان جزائر کے حصول کے تاریخی پس منظر پر بھی زور دیتا ہے۔ روسی حکومت کا موقف ہے کہ یہ جزائر ان کا جائز حق ہیں اور ان پر کنٹرول اس کے علاقائی استحکام اور سلامتی کے لیے ضروری ہے۔ اس موضوع پر اقوام متحدہ اور دیگر عالمی فورم خاموش ہیں لہٰذا کوریل جزائر کے تنازعے کا حل عملی سفارت کاری کو مدنظر رکھتے ہوئے متوازن طریقہ کار کا متقاضی ہے۔ اس سلسلے میں سفارتی ماہرین نے کچھ ممکنہ حل بھی پیش کیے ہیں مثلاً یہ کہ جاپان اور روس فوری حاکمیت کے مسئلے کو ایک جانب رکھ کر متنازع جزائر پر مشترکہ اقتصادی زونز قائم کر سکتے ہیں، جس سے دونوں ممالک کو وسائل کی ترقی سے فائدہ ہو سکتا ہے۔ اس تعاون سے اعتماد پیدا ہو سکتا ہے اور مزید جامع مذاکرات کے لیے راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ اس ضمن میں ایک اور تجویز بین الاقوامی ثالثی کا آپشن بھی بتایا جاتا ہے، جس کے مطابق کسی تیسرے غیر جانبدار فریق یا بین الاقوامی تنظیموں کو تنازعے میں ثالثی کے لیے شامل کرنا اس مسئلے کا ممکنہ حل اور جانبین کو منصفانہ اور متوازن معاہدے تک پہنچنے میں مدد دے سکتا ہے۔