شرپسندوں کا سر کچل دو! مظلوموں کا نہیں!

284

صوبہ خیبر پختون خوا میں مظاہرہ تشدد اور ہلاکتوں سے حالات کشیدہ ہوگئے۔ امن مارچ جو شرکا کی تعداد کے لحاظ سے متاثر کن اور امن کا متلاشی تھا۔ یکایک فائرنگ سے گونج اٹھا اور پھر لوگوں نے تڑپتے ہوئے زخمیوں اور جان سے ہاتھ دھونے والوں کی لاشیں اٹھائیں۔ یہ امن مارچ پرامن لوگوں کا تھا جن کے تحفظات ’’استحکام پاکستان‘‘ کے منصوبہ پر تھے، ان کی بات سنی جاتی دلائل سے مطمئن کیا جاتا مگر کہتے ہیں کہ شرپسندوں نے اس موقع کا فائدہ اٹھایا اور بنوں کینٹ کی طرف اس کا رخ موڑ کر ایسے فساد کے منصوبہ کو پایہ تکمیل تک پہنچایا اور یوں اپنے مذموم مقاصد کا سامان کیا۔ کے پی کے میں تحریک انصاف کی حکومت ہے تو باقی پاکستان میں پی ڈی ایم نامی اتحاد کی حکمرانی ہے تو مجھے تاریخ کا وہ واقعہ یاد آگیا جب شرپسندوں نے جن میں مالک اشتر پیش پیش تھا اس نے سیدنا عثمان ذوالنوریں کو شہید کرکے اپنے بچائو کی خاطر سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کی بیعت کرلی اور یہ گروہ جو بے قابو تھا، سیدنا علیؓ کی نئی نویلی خلافت جو قاتلانہ عثمان کو سزا دو کے مطالبے سے دوچار تھی اور اس مطالبے کو امیر معاویہ اور سیدہ عائشہؓ کی حمایت حاصل تھی کو سیدنا علیؓ کے مقابل اس حد تک لے آیا کہ فریقین کی فوجیں مقابل ہوگئیں خون ریزی سے بچنے کے لیے صلح و صفائی کا عمل مصلحین نے شروع کیا اور بات نے تنائو کا ماحول کم کیا اور جنگ ٹلنے اور قاتلان عثمان سے حالات کے استحکام کے بعد نمٹنے کی بات آگے بڑھی، مگر قاتلان عثمانؓ کا گروہ جو سیدنا علیؓ کے کیمپ میں پناہ گزین تھا اس نے اس صلح و صفائی کو اپنی موت جانا اور صبح کی پو پھٹنے سے پہلے امیر معاویہ کے لشکر پر حملہ کردیا اور یوں انہوں نے بھی وعدہ خلافی جانا اور جنگ چھڑ گئی۔

کسی کو یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ امن وامان کی جلنے والی ٹھنڈی ہوا کیوں آتش فشاں ہوگئی اور کلمہ گو فریقین جو ایک ہی نبیؐ کے امت کی لہو کی پیاسی ہوگئی۔ دھرتی مسلم خون سے لالہ زار ہوگئی اور یوں تاریخ کا وہ بدترین باب رقم ہوا، ہزاروں کلمہ گو شہید ہوگئے جس کو پڑھ کر مسلمان خون کے آنسو روتے ہیں کہ شرپسندوں کی چال نے کیسے باہم لڑا دیا۔ اس دور میں صوبہ شام میں امیر معاویہ کی حکومت تھی تو کوفہ میں سیدنا علیؓ کا دارالخلافہ تھا۔ بلاد عرب شورش، انتشار کا شکار ہو چلا تھا۔ اور یہ آگ لگانے والے فتنہ پرور تھے اور یوں اسلام کا پھیلائو جو دنیا کو تیزی سے اپنی چھائوں تلے لے رہا تھا وہ رُک گیا۔ پاکستان بھی اس ہی صورت حال سے دوچار ہے۔ یہ نظریۂ اسلام کلمہ طیبہ کی بنیاد پر معرض وجود میں آنے والی ریاست انہی سازشی عناصر کے منصوبوں کا شکار ہے۔ اس نے جہاد افغانستان میں کلیدی کردار ادا کیا، سو بات ان سازشیوں کو سمجھنے اور ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی ہے جو قومیت اور مذہب کے لبادہ میں حقوق کے نام پر جذبات کو اُبھار کر فساد فی الارض کا سبب بن رہے ہیں۔ فساد فی الارض کی سزا واصل جہنم کرنا ہے ان کو ڈھیل دینا ہرگز نہیں۔ کون نہیں جانتا کہ کس فساد کی ڈور کس کے ہاتھ میں ہے کون ان کا اسپانسر ہے۔ اور ان کے مقاصد کیا ہیں۔ اس فتنہ فساد نے اسلام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ پاکستان دشمنوں کی سازش کا شکار صرف نظریہ اسلام کی بدولت ہے۔ نظریے کی دشمنی انہیں درندہ بنائے ہوئے ہے، بھارت، اسرائیل، امریکا و دیگر اسلام دشمن قوتوں کا ہدف صرف اس بنا پر ہے کہ یہ امت مسلمہ کا قلعہ ہے اور ایٹمی قوت کیوں ہے۔ شرپسندوں کو اسی طرح کچل دو جس طرح انڈونیشیا میں کچلا گیا تھا۔ یہ شورش اس ہی قسم کی ہے جس طرح کی سیدنا عثمان کے دور میں مملکت اسلامیہ کو کمزور کرنے کے لیے دیدہ اور نادیدہ ہاتھوں نے اٹھائی تھی۔ 2020 میں پاکستان کے حصے بخرے کرنے کا خواب دیکھنے والے ناکامی ہزیمت یہ چال چل رہے ہیں کہ ہمدرد بن کر، ضمیروں کو خرید کر، حاشیہ برداروں کے ذریعے پاکستان کے حصے بخرے کرنا چاہتے ہیں۔ حل یہ ہے کہ شرپسندوں کے سروں کوکچل دو، مظلوموں کا ہرگز نہیں، یہی راہ بقا ہے۔