جماعت اسلامی کا عوامی دھرنا اور نا اہل حکمران

383

غربت، مہنگائی اور بے روز گاری و بے کاری سے ملک کا ہر طبقہ پریشان ہے حکومت کا بنیادی فرض عوام کو ان مسائل سے نجات دلانا اور ان کے لیے آسانیاں پیدا کرنا ہے مگر ہمارے حکمرانوں کا طرز عمل اس کے قطعی برعکس ہے، وہ اپنے شہریوں کے مسائل کے حل کے بجائے ایسی پالیسیاں نافذ کر رہے ہیں جن سے عام آدمی کے مصائب و مشکلات میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے جس کی نمایاں ترین مثال حکومت کی جانب سے آئے دن پٹرول اور بجلی، جیسی سرکاری کنٹرول میں فراہم کی جانے والی چیزوں کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہے اور اب تو نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ وزیر اعظم محمد شہباز شریف کے برادر بزرگ اور حکمران مسلم لیگ کے سربراہ سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف بھی چیخ اٹھے ہیں کہ ’’بجلی کا بل کوئی بھی ادا نہیں کر سکتا،غریب لوگوں کے لیے ہی نہیں بلکہ ہر ایک کے لیے مصیبت بن چکا ہے۔‘‘ شریف خاندان کی جمع کردہ دولت، عیش و عشرت کی زندگی اور حکومتی وسائل کو ذاتی مصرف میں استعمال کرنے کی دیرینہ روایت کو سامنے رکھتے ہوئے میاں نواز شریف کا یہ بیان اگرچہ مگر مچھ کے آنسوئوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا مگر حالات کی نزاکت کی نشاندہی ضرور کرتا ہے جس نے اپنے ہی خاندان کی حکمرانی اور تمام تر اختیارات کے باوجود عوام کی اشک شوئی کی خاطر یہ بیان دینے پر مجبور کر دیا ہے ورنہ وہ اگر اپنے اسی بیان میں سنجیدہ ہوتے تو اس قدر با اختیار ضرور تھے کہ اپنے بھائی وزیر اعظم محمد شہباز شریف اور بیٹی وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کو ہدایات جاری کرتے کہ بجلی کے ناجائز بلوں اور اس پر ظالمانہ ٹیکسوں کی عوام سے وصولی کا سلسلہ فوری بند کیا جائے مگر یہاں تو معاملہ خاصا مختلف اور محض بیان برائے ہمدردی عوام تک محدود ہے عوام کے دکھ درد کا حقیقی احساس حکمران خاندان میں کسی بھی سطح پر موجود نہیں، حکمران شریف خاندان کے اسی طرز عمل کا نتیجہ ہے کہ ایک جانب تو بجلی کے موجودہ بلوں ہی کے سبب عوام کی چیخیں نکل رہی ہیں مگر دوسری جانب حکومت بجلی کی پہلے سے آسمان سے باتیں کرتی قیمتوں میں دو روپے 63 پیسے فی یونٹ اضافہ کی نوید سنا رہی ہے۔ حکمران نواز لیگ کی اتحادی پیپلز پارٹی یا زرداری خاندان کا معاملہ بھی اس سے مختلف نہیں چنانچہ ملک کے اہم آئینی مناصب حاصل کرنے کے باوجود حکومت پر تنقید کا نمائشی سلسلہ بھی جاری ہے چنانچہ لاہور میں زرداری صاحب کی سالگرہ کی تقریب میں حکومت کے خلاف نعرے بھی لگائے جاتے ہیں اور پارٹی کے گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر نواز لیگ کی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے آئی پی پیز کو قوم پر ظلم بھی قرار دیتے ہیں لیکن عملاً ہر مشکل مرحلے پر پیپلز پارٹی حکومت کے تحفظ و دفاع کا فریضہ بھی ادا کرتی نظر آتی ہے اپنے اس محافظانہ کردار کا معاوضہ وہ کیا وصول کرتی ہے، یہ ایک الگ معاملہ ہے ایسے دہرے کردار کی حامل ہماری مقتدر سیاسی جماعتوں کے جھرمٹ میں جماعت اسلامی یقینا قوم کے لیے ایک نعمت و رحمت کی حیثیت رکھتی ہے جس کے کارکنان ہر مشکل، مصیبت اور آسمانی آفت کے وقت قوم کی خدمت میں ہمہ تن مصروف نظر آتے ہیں اور عوام کو در پیش معاشی و معاشرتی مسائل کے حل کے لیے بھی ہمہ وقت مستعد اور متحرک دکھائی دیتے ہیں چنانچہ اسی ایجنڈے اور جذبے کے تحت جماعت کی قیادت نے کم و بیش ایک ماہ قبل بجلی کے ناجائز بلوں، بجٹ میں عائد کئے گئے ظالمانہ ٹیکسوں اور لوڈشیڈنگ کے عذاب سے عام آدمی کو نجات دلانے کے لیے ایک جاندار تحریک چلانے کا فیصلہ کیا اور ایک واضح ’’منشور مطالبات‘‘ حکومت کے سامنے رکھا جس میں مہنگی بجلی اور بلوں میں بھاری ٹیکسوں کا خاتمہ، گھریلو بجلی کے یونٹ کی قیمت دس روپے اور تجارتی یونٹ کی پندرہ روپے مقرر کرنے، سول و فوجی بیورو کریسی سمیت تمام حکمران طبقہ کی مراعات اور عیاشیاں ختم کرنے ، تنخواہ داروں کے بجائے جاگیرداروں پر ٹیکس لگانے، ’دبئی لیکس‘ اور حکمرانوں کی دوسری اندرون و بیرون ملک ناجائز جائیدادوں کا حساب دینے، سلیب سسٹم کے نام پر بجلی کے بلوں میں عوام کا خون نچوڑنے، لوڈشیڈنگ اور حکمرانوں کو مفت بجلی کی فراہمی بند کرنے، آئی پی پیز سے غیر منصفانہ معاہدوں پر نظر ثانی اور گنجائش سرچارج کے خاتمہ کے مطالبات شامل تھے جماعت امیر حافظ نعیم الرحمن نے حکومت کی جانب سے یہ مطالبات تسلیم نہ کئے جانے کی صورت میں بارہ جولائی کو اسلام آباد میں ’’عوامی دھرنا‘‘ دینے کا اعلان بھی کیا تاہم بعد ازاں عاشورہ محرم قریب ہونے کی بناپر دھرنا کی تاریخ جمعہ 26 جولائی تک بڑھا دی گئی۔ جماعت اسلامی نے عوامی مسائل کے حل کی اپنی اس تحریک کو ’’حق دو عوام کو۔ بدلو ظلم کے نظام کو‘‘ کا نام دیا ہے جو یقینا تحریک کے مقاصد سے پوری طرح ہم آہنگ ہے…!

عو امی مسائل کے لیے احتجاج مسلمہ جمہوری روایات کا حصہ اور ہر سیاسی جماعت کا آئینی و قانونی حق ہے جس کا استعمال ملک کی تقریباً تمام سیاسی جماعتیں مختلف اوقات میں کرتی رہی ہیں، خود حکمران مسلم لیگ اپنے قیام کے بعد سے مسلسل اس طرح کی سیاسی و احتجاجی سرگرمیاں کرتی رہی ہے جن میں مختلف احتجاجی تحریکوں کے علاوہ بے نظیر حکومت کے خلاف ’’تحریک نجات‘‘ ، ’’پہیہ جام ہڑتال‘‘ اور ابھی ماضی قریب میں تحریک انصاف کی حکومت کے دوران ’’مہنگائی مارچ‘‘ نمایاں ہیں مگر جماعت اسلامی نے جب اسلام آباد میں ’’عوامی دھرنا‘‘ دینے کا اعلان کیا تو حکومت نے اسے ایک جائز، آئینی و قانونی سیاسی سرگرمی تصور کرتے ہوئے اس میں تعاون کے بجائے اقتدار کے نشے میں بدمست ہو کر حکومتی طاقت کے ذریعے اسے روکنے کا فیصلہ کیا اور پنجاب حکومت کے علاوہ وفاقی حکومت نے بھی وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ کر کے جماعت اسلامی کے پر امن احتجاجی دھرنے کو غیر قانونی قرار دے کر اس پر پابندی عائد کر دی ملک بھر میں جماعت کے کارکنوں کے گھروں پر چھاپے مار کر پکڑ دھکڑ کی گئی ، اسلام آباد کے دھرنے میں شرکت کے لیے جانے والی بسوں اور ان میں سوار کارکنوں کو راستے میں روک کر تھانوں میں بند کر دیا گیا ، اسلام آباد میں بڑے بڑے کنٹینر کھڑے کر کے مرکزی شاہراہوں کو بند کر دیا گیا ۔جماعت کے پر امن کارکنوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں اشتعال لازمی تھااور یہ پر امن و منظم تحریک منفی سمت اختیار کر سکتی ہے کیونکہ تشدد اور اشتعال انگیزی کے جواب میں احتجاجی کارکنوں کو پر امن رکھنا آسان نہیں ہو گا تاہم اس کے باوجود امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن اور جماعت کے دیگر قائدین کا حوصلہ قابل داد ہے جنہوں نے اپنے کارکنوں کو ہر صورت پر امن رہنے کی ہدایت کی ہے اور واضح کیا ہے کہ ہماری تحریک اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ عوامی حقوق کے لیے ہے ہم پر امن رہیں گے مگر کسی صورت اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، کارکنوں کو جہاں روکا جائے، وہ وہیں دھرنا دے دیں۔ سوال یہ ہے کہ جو کام کل تک خود حکمران جماعت سیاسی سرگرمی کے طور پر اپنے لیے جائز سمجھتی رہی ہے آج وہ اسے طاقت کے زور پر روکنے پر بضد کیوں ہے؟

حکومت کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ مثبت سوچ اپنائے احتجاج کو بزور روکنے کے بجائے جماعت اسلامی کے مطالبات تسلیم کرتے ہوئے عوام کو مہنگائی کے عذاب سے نجات دلائے، بجلی کے بلوں میں ناقابل برداشت اضافہ واپس لے اور آئی پی پیز سے معاہدوں پر نظر ثانی کر کے انہیں حقیقت پسندانہ بنائے، حکمران طبقہ عیش و عشرت کی زندگی ترک کرے، بیورو کریسی سے بھی ناقابل فہم مراعات واپس لے کر قومی خزانے پر بوجھ ختم کیا جائے حکومت کے پاس اب بھی وقت ہے وہ جماعت اسلامی کی پر امن تحریک کو تشدد کی راہ پر جانے سے روکنے کے لیے مفاہمت کا راستہ اختیار کرے ورنہ حکمرانوں کو یہ بات بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ ملک کے 25 کروڑ عوام کے پاس ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘کا راستہ بھی موجود ہے…!!!