ن لیگ اور پیپلزپارٹی اپنی غلطیوں کی وجہ سے صوبائی پارٹیاں بن کررہ گئیں

236

اسلام آباد (رپورٹ: میاں منیر احمد) مسلم لیگ (ن) صرف پنجاب اور پیپلز پارٹی صرف سندھ کی جماعت کیوں بن گئی ہے؟ جسارت کے اس سوال کے جواب میں تجزیہ کاروں‘ سیاسی کارکنوں اور سول سوسائٹی کے افراد نے اپنے ردعمل میں ایک مجموعی رائے دی کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی اپنی غلطیوں کی وجہ سے صوبائی پارٹیاں بن کررہ گئیں‘ پیپلزپارٹی نے سندھ اور ن لیگ نے پنجاب کی بات کی اور قومی سیاست کو نظرانداز کیا‘ صرف کرپشن میں نام کمایا‘پی پی بھٹو کے نام کو کیش کراتی ہے‘نواز شریف کے مزاج نے ن لیگ کیلیے مسائل پیدا کیے‘ سیاسی جماعتوں کی طاقت توڑنے کا سلسلہ جنرل ایوب خان نے شروع کیا ‘ مصنوعی طور پر پارٹیاں بنانے سے سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا۔تجزیہ کار اعجاز احمد نے کہا کہ قومی سیاسی جماعتوں کو محدود کرنے کا سلسلہ تو سب سے پہلے ایوب خان کے دور میں شروع ہوا اس کے بعد ضیا الحق آگئے‘ غیر جماعتی انتخابات کرائے اس سے بھی بہت فرق پڑا‘ لیکن یہ بات طے ہے کہ قومی سیاسی جماعتوں کو مصنوعی طور پر بنانے اور گرانے سے ملک میں سیاسی عدم استحکام بڑھ گیاہے اور یہ کوئی اچھا شگون نہیں ہے‘ سیاسی جماعتوں کو عوام کے ووٹ کی طاقت سے ہی حکومت میں آنا چاہیے اور ووٹ کی طاقت سے حکومت سے باہر ہونا چاہیے اس عمل سے ملک میں سیاسی استحکام بڑھے گا‘ آپ دیکھئے کہ تحریک انصاف بھی اسی طرح کی مشکل میں ہے جس سے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی گزر چکی ہیں اس کے باوجود دونوں کا ووٹ بینک موجود ہے البتہ یہ پنجاب اور سندھ کی حد تک محدود ہوگئی ہیں کہ انہوں نے اپنے دور میں جو بھی کام کیا اسے سندھ اور پنجاب نے ضرور اہمیت دی‘ اگر قومی سیاسی جماعتیں اسی طرح ووٹ کی طاقت کے بغیر مصنوعی طریقے سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہیں تو ملک پریشر گروپس کے حوالے ہوگا جو کسی بھی لحاظ سے احسن بات نہیں ہوگی اور اس سے جمہوریت مزید کمزور ہوگی۔ تجزیہ کار مظہر طفیل نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ لگایا اور جمہوریت اور سول بالادستی کی بات کی تو اسے رد عمل کا سامنا کرنا پڑا اور نواز شریف کا مزاج بھی مسلم لیگ (ن) کو محدود کرنے کا باعث بنا اس کی جگہ تحریک انصاف کو اٹھایا گیا تحریک انصاف میں دیگر جماعتوں کے لوگ شامل کیے گئے اور اسے ایک پارٹی بنادیا گیا‘ لیکن اس کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے پنجاب اور پیپلز پارٹی نے سندھ کو اپنی بنیاد سمجھ کر اس وکٹ کو نہیں چھوڑا بلکہ اس پر توجہ دی کہ کہیں سیاسی میدان میں انہیں اپنی رہی سہی اس لنگوٹی سے بھی ہاتھ نہ دھونے پڑ جائیں اس لیے یہ جماعتیں پنجاب اور سندھ کی حد تک محدود ہوگئیں‘ اب ملک میں صورت حال یہ ہے کہ قومی جماعتوں کے کم ہوتے ہوئے اثر کی وجہ سے ملک اس وقت ’’ لیڈر لیس‘‘ صورت حال سے گزر رہا ہے اور یہ صورت حال بہت خطرناک ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما افتخار چودھری نے کہا کہ پیپلز پارٹی کو سندھ میں کوئی چیلنج نہیں ہے‘ تحریک انصاف نے بھی سندھ میں کام نہیں کیا کہ جس سے پیپلز پارٹی کو کوئی فرق پڑسکا لہٰذا وہ سندھ میں موجود ہے تاہم مسلم لیگ (ن) تو اب پنجاب سے بھی ختم ہوگئی ہے‘ بہت سے اضلاع اس کے ہاتھ میں نہیں رہے ان پر تحریک انصاف اپنا سیاسی رنگ جما چکی ہے۔ مسلم لیگ (ج) کے صدر اقبال ڈار نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے پنجاب کی بات کی ہے اور اپنے سیاسی مفادات کو اس حد تک ہی رکھا ہے‘ اسی طرح پیپلز پارٹی نے بھی خود کو سندھ کی حد تک محدود کرلیا ہے اور وہ بھٹو کے نام کو کیش کراتی ہے یہی وجہ ہے کہ دونوں جماعتیں پنجاب اور سندھ کی حد تک محدود ہوگئی ہیں۔سول سوسائٹی کے رکن اور دانشور ذوالفقار علی شاہ نے کہا کہ دونوں جماعتوں نے بہت سیاسی غلطیاں کی ہیں جس کی وجہ سے یہ دونوں اب ایک صوبے تک محدود ہوگئیہیں ویسے بھی ہمارے ملک میں قومی سطح کی سیاسی جماعتوں کو بے شمار نشیب و فراز سے گزرنا پڑا ہے اور اسی وجہ سے سیاسی جماعتوں کا وزن کم ہوتا جا رہا ہے۔