تاجر ہڑتال کی کال کا مطالبہ کررہے ہیں،صدر کراچی چیمبر

213

کراچی(کامرس رپورٹر)کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے صدر افتخار احمد شیخ نے کہا ہے کہ سڑکوں پر احتجاج یا ہڑتالوں کے ذریعے اْٹھائے جانے والے مسائل پر توجہ تو دی جارہی ہے لیکن بعض انتہائی پریشان کن اور بڑے مسائل باالخصوص ناقابل برداشت حد تک توانائی کے بے پناہ نرخ، کاروباری لاگت اور ضرورت سے زیادہ ٹیکس وغیرہ کو قانون سازوں کی جانب سے مکمل طور پر نظر انداز کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف تاجر برادری بلکہ تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی ہے۔یہ امر واقعی تشویشناک ہے کہ کے سی سی آئی اور پاکستان بھر کے چیمبرز آف کامرس کے ساتھ ساتھ کئی دیگر ٹریڈ باڈیز وقتاً فوقتاً پریس کانفرنسز اور میڈیا بیانات کے ذریعے مسلسل اپیلیں جاری کر رہی ہیں تاکہ حکومت کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے اقدامات کرنے پر قائل کیا جا سکے لیکن بدقسمتی سے تاجر پرادری آج تک ریلیف کی منتظر ہے۔صدر کے سی سی آئی نے مزید کہا کہ فوری ریلیف تب ہی نظر آیا جب آزاد جموں و کشمیر کے عوام بجلی کے نرخوں میں کمی کا پْرزور مطالبہ کرنے سڑکوں پر نکل آئے جو فوری مہیا کیا گیا جبکہ ہڑتال پر جانے والی فلور ملز اور پیٹرول ڈیلرز کے مطالبات بھی پورے کیے گئے لیکن تاجر برادری کے تمام جائز مطالبات بشمول آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر دوبارہ مذاکرات کرنے کا حالیہ مطالبہ مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔کراچی چیمبرکے ساتھ وقتاً فوقتاً بات چیت کرنے اور جب بھی کراچی کا دورہ کیا تو چیمبر کے وفد سے ملاقاتیں کرنے پر وزیر اعظم شہباز شریف کو سراہتے ہوئے کے سی سی آئی کے صدر نے کہا کہ دوسری جانب وزیر خزانہ کبھی ملاقات کے لئے کے سی سی آئی کے لکھے گئے خطوط کا جواب نہیں دیتے عام طور پر آئی ایم ایف کے راضی نہ ہونے کے بہانے کے ساتھ ہی سامنے آتے ہیں۔چونکہ ہم زبردست دباؤ میں ہیں، ہم اپیل کرتے ہیں کہ حکومت صورتحال کا سنجیدگی سے نوٹس لے اس سے قبل کے بہت دیر ہوجائے۔انہوں نے کہا کہ تاجر برادری کے اراکین کراچی چیمبر سے مسائل کے حل کے لئے مدد طلب کرتے ہوئے یہ اظہار کرتے ہیں کہ موجودہ حالات میں اب ہڑتالوں، دھرنے اور احتجاجی ریلیاں نکالنے کا واحد راستہ رہ گیا ہے کیونکہ احتجاجی بینرز آویزاں کرنے، کالے جھنڈے لہرانے، پریس کانفرنسز، اور اپیلوں کی اشاعت کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا لہذا وہ کراچی چیمبر پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ ہڑتال کی کال دی جائے۔