اسلام آباد (رپورٹ: میاں منیر احمد) سیاستدانوں کی لڑائیوں‘ بے جاالزامات‘اقتدار کی ہوس ‘پسند ناپسند کی بنیادپ رکھڑے کیے گئے سیاسی گروہوں کی وجہ سے ملک اور معاشرے پر اسٹبلمشمنٹ کاغلبہ ہوا‘ملک میں حقیقی احتساب ‘ صاف ستھری سیاست ہوتی تو مسائل کاشکار نہ ہوتا‘سیاسی جماعتوں کو مقبول وغیرمقبول بنایا گیا‘احتساب کے پس پردہ بھی پسند ناپسند کا عمل دخل رہا‘جس سے نہ صرف سیاسی جماعتیں متاثر ہوئیں بلکہ اس سے معاشرے پربھی اثرات مرتب ہوئے‘سیاسی جماعتوں کی باہم لڑائیوں‘ تصادم اور ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی چور چور اور ڈاکو کی گردان نے اسٹبلشمنٹ کا کام اآسان بنایا کہ وہ سیاسی جماعتوں پر بھی قابو پاسکے اور معاشرے میں بھی یہ تاثر گہرا ہوتا چلا گیا کہ سیاست دان تو آپس میں لڑتے رہتے ہیں۔ ان خیالات کااظہارممتاز قانون دان سپریم کورٹ کے وکیل ڈاکٹر صلاح الدین مینگل ‘تاجر رہنماء عمران شبیر عباسی ‘ سول سوسائٹی کے ممبر اظہر شیخ اور کشمیر فورم کے چیئرمین سید جاوید الرحمن ترابی نے جسارت کے سوال پاکستانی معاشرے پر اسٹبلشمنٹ کے غلبہ کے اسباب کیا ہیں؟کے جواب
میں اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔ممتاز قانون دان سپریم کورٹ کے وکیل ڈاکٹر صلاح الدین مینگل نے کہا سیاسی جماعتوں کی سب سے بڑی غلطی یہ رہی انہوں نے اپنے اقتدار کے لیے ہمیشہ سہارا تلاش کیا اور عوام کے پاس جانے کی بجائے اس گھاٹ سے پانی پینے کی ترجیح دی جہاں سے اسے پہلا سبق ملا کہ ایبڈو قانون کے اثرات یہ ہیں کہ جو بات نہیں مانے گا وہ کبھی حکومت میں نہیں آسکے گا یہی وجہ تھی کہ سیاست دان سمجھوتا کرتے چلے گئے صرف اپنے اقتدار کے لیے‘ ایوب خان نے اس کی ابتداء کی تھی‘ اس کے بعد ضیاء آئے اور ان کے بعد مشرف آئے انہوں نے بھی احتساب کا نعرہ لگایا مگر چن چن کر وہی لوگ اپنے دائرہ میں شامل کیے جو حکومت میں آنے کے لیے ہر شرط تسلیم کرنے کو تیار ہوئے‘ عوام تو بے چارے اپنے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں انہیں روٹی‘ نوکری اور تحفظ چاہیے جب انہیں سب کچھ ایک ایسے راہنماء سے ملنا تھا کہ جس کی اصل قوتوں کے ساتھ مقبولیت تھی تو اسی وجہ سے وقت کے ساتھ ساتھ یہ سوچ پختہ ہوتی چلی گئی کہ جو جیت رہا ہے یا جس کے جیت جانے کے ذیادہ چانس ہیں اسی کو ووٹ دے دیا جائے یوں ملک میں ایسی سیاسی جمہوریت رہی جو کسی کی خواہش کی پابند تھی‘ پھر دیکھیں سیاسی جماعتوں نے کام بھی نہیں کیے‘ مہنگائی بڑھ رہی ہے‘ اور مسلسل بڑھ رہی ہے‘ ملک میں لاقانونیت بڑھ رہی ہے‘ تحفظ صرف اسی کو حاصل ہے جس کی اعلی سطح پر رسائی ہے تو جہاں ایسا ماحول ہوگا وہاں کے عوام کیوں نہ اس کا اثر لیں گے اب دیکھیے ‘ یہ حکومت کیا کر رہی ہے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی تمام جائز ناجائز شرائط کو مانتے ہوئے عوام ناروا بوجھ ڈالنا شروع کردیا ہے‘ حکومت کی طرف سے عوام کو ریلیف دینے کے دعوے تو بہت سے کیے جارہے تھے ٹیکسوں کی بھرمار سے یہ واضح پیغام دیا جارہا ہے کہ حکومت کو عوام کا ہرگز احساس نہیں ہے۔ تاجر رہنماعمران شبیر عباسی نے کہا کہ نون لیگ نے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو عدم اعتماد کے ذریعے ہٹاتے ہوئے عوام کو بہت سے سبز باغ دکھائے تھے، 16 مہینے کے دوران شہباز حکومت کی جو کارکردگی رہی وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے بعد جب دوبارہ محمد شہباز شریف وزیراعظم بنے تو انھوں نے پھر کئی وعدے کیے لیکن تاحال ان میں سے کوئی وعدہ وفا نہیں ہوا۔ کسانوں پر بوجھ ڈال کر گندم سستی کرنا کوئی بڑا کارنامہ نہیں۔ حکومت جس دن پٹرول، بجلی اور گیس کے نرخوں میں کمی لائے گی عوام کو ریلیف تب ملے گا‘ اشرافیہ کو دی جانے والی اربوں کھربوں روپے کی مراعات و سہولیات ختم کی جائیں، یہ سلسلہ جتنی جلد ممکن ہوسکے بند ہونا چاہیے۔ مشکل فیصلے عوام پر مسلط کیے جا رہے ہیں۔ اشرافیہ اپنے بارے بھی ایسے سخت فیصلے کرلے۔خود بھی تھوڑی سی قربانی دیدے تو عام آدمی کی زندگی آسان ہو سکتی ہے۔پاکستان میں اشرافیہ کو جو سہولیات اور مراعات حاصل ہیں اس کا تذکرہ اقوام متحدہ میں بھی ہو رہا ہے۔ کشمیر فورم کے چیئرمین سید جاوید الرحمن ترابی نے کہا کہ پاکستان میں اشرافیہ کی مراعات پر سالانہ 17 اعشاریہ چار ارب ڈالر بیجا خرچ ہوتے ہیںدوسری طرف بجلی صارفین پر ایک ہزار تک فکسڈ چارجر کا نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا گیا، جس کا اطلاق یکم جولائی 2024 سے ہوچکا ہے عوام کو مسلسل ریلیف دیے جانے کے دعوے کیے جا رہے ہیں مگر حقیقت اسکے برعکس ہے۔ عوامی مشکلات کو نظرانداز کرتے ہوئے بجلی کے نرخ جس بے دردی سے بڑھائے جا رہے ہیں‘ اس سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ اتحادی حکومت کو عوام کی مشکلات سے کوئی سروکار نہیں جب ایسی صورت حال ہے تو پھر عوام کسی اور کی طرف دیکھتے ہیں عوام بدترین مہنگائی سے عاجز آچکے ہیں جس نے عوام کا عرصہ حیات تنگ کر کے رکھ دیا ہے۔