….میرا جینا میرا مرنا.

333

نسان جب اللہ کے لیے کچھ کرتا ہے تو اسے اللہ سے قریب ہوجانے کا احساس ہوتا ہے۔ قربِ الہی کی یہ کیفیت روح کے لیے فرحت بخش ہوتی ہے۔ روحانیت یہ ہے کہ انسان جو کچھ بھی کرے وہ اللہ کی رضا جوئی کے لیے کرے۔ روح اور نفس میں اس حوالے سے کش مکش برپا رہتی ہے۔ نفس کی خواہشات اس کے اپنے لیے ہوتی ہیں، جبکہ روح رضائے الہی کی طالب ہوتی ہے۔ انسان جب کوئی کام اپنے لیے کرتا ہے تو اس کے نفس کو خوشی ہوتی ہے۔ لیکن جب کوئی کام اللہ کے لیے کرتا ہے تو اس کی روح خوش ہوتی ہے۔ روح کے لیے یہ احساس نہایت فرحت بخش ہوتا ہے کہ ’اللہ کے لیے کچھ کرنے‘ کی سعادت اس کے حصے میں آئی۔
جسم کے اپنے کبھی ختم نہ ہونے والے تقاضے ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ ہی روح کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ جسم صرف اللہ کی رضا جوئی والے کام کرے۔ اللہ تعالی کا انسان پر یہ عظیم احسان ہے کہ اس نے روح اور جسم کے تقاضوں کی تکمیل کا مشترک راستہ دکھادیا۔ وہ راستہ یہ ہے کہ انسان اپنے جسم کے جو جائز تقاضے پورے کرے، ان میں بھی نیت یہ ہو کہ وہ اللہ کے لیے کررہا ہے۔ اس کی یہ نیت اسے اللہ سے قریب کرے گی اور روح کے لیے مسرت کا سامان کرے گی۔
پیارے نبیؐ نے فرمایا: مسلمان جب اللہ کی خاطر اپنے گھر والوں پر خرچ کرتا ہے، تو وہ خرچ صدقہ شمار ہوتا ہے۔ (متفق علیہ)

پیارے نبیؐ نے یہ بھی فرمایا: تم جو اپنی بیوی سے صحبت کرتے ہو، اس میں بھی صدقہ ہے۔ لوگوں نے حیرت سے پوچھا: رسول خدا ہم اپنی شہوت پوری کریں گے اور اس میں بھی اجر ملے گا؟ فرمایا: سوچو اگر حرام طریقے سے شہوت پوری کرتے تو گناہ ملتا، اسی طرح حلال طریقے سے پوری کرنے میں اجر ملے گا۔ (صحیح مسلم)
پیارے نبیؐ نے سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ سے فرمایا: ’’تم اللہ کی رضا جوئی کے لیے جو کچھ بھی خرچ کرو گے، اس میں تمھیں اجر ملے گا، یہاں تک کہ اپنی بیوی کے منہ میں جو لقمہ دو گے، اس میں بھی‘‘۔ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)
امام نوویؒ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اس میں یہ بات ہے کہ جائز کاموں کو اگر اللہ کی رضا جوئی کے لیے کیا جائے تو وہ اطاعت بن جاتے ہیں اور ان پر ثواب ملتا ہے، نبیؐ نے بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالنے کی بات کہہ کر اسی طرف متوجہ کیا ہے۔ کیوں کہ انسان کی بیوی اس کی خاص دنیوی متاع اور جائزشہوت ولذت کی خاص ترین چیز ہے۔ اگر اس کے منہ میں وہ لقمہ ڈالتا ہے تو عام طور سے یہ ملاعبت، دل لگی اور جائز لذت اندوزی کے وقت ہوتا ہے۔ یہ کیفیت اطاعت اور آخرت کی تیاری سے بعید ترین شمار ہوتی ہے۔ اس کے باوجود نبیؐ نے آگاہ کیا کہ اگر اس لقمے سے اللہ کی رضا مقصود ہو تو اس کا بھی اجر ملے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر اللہ کی رضا مقصود ہو تو پھر دوسری جائز حالتیں اجر کی زیادہ سزاوار ہوں گی۔ (شرح نووی)

فرائض سے لے کر نوافل کی ادایگی تک ہر قدم اللہ سے قریب کرتا ہے۔ رسولؐ نے فرمایا:
’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اس کے خلاف میری طرف سے اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ جن جن عبادتوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے ان میں مجھے سب سے زیادہ فرائض پسند ہیں۔ اور میرا بندہ نفل عبادتیں کر کے مجھ سے قریب ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں۔ پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں، اگر وہ میری پناہ میں آنا چاہتا ہے تو میں اس کی حفاظت کرتا ہوں۔ (صحیح بخاری)
فرض کا دائرہ وسیع ہے۔ عبادتوں سے لے کر بندوں کے حقوق تک ہر وہ چیز فرض ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے حکم دیا ہے۔ اس کے بعد نوافل کا دائرہ بھی عبادتوں سے لے کر بندوں کے حقوق تک پھیلا ہوا ہے۔ جیسے ہی بندہ فرض کی ادایگی کے لیے کمربستہ ہوتا ہے، وہ اللہ سے قریب ہونے لگتا ہے، اور پھر وہ نوافل کے ذریعے اور قریب ہوتا چلا جاتا ہے۔ فرائض و نوافل کا یہ سلسلہ جیسے جیسے آگے بڑھتا ہے، روح اللہ سے قریب ہوتی جاتی ہے۔

اس حدیث میں لطیف پیرایے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جب انسان اپنی روح کو اللہ سے قریب کرتا ہے، تو اللہ اس کے جسم کے تقاضے اپنے ذمے لے لیتا ہے اور غیب سے اس کی مدد کرتا ہے۔
ہماری نگاہیں اللہ کو نہیں دیکھ سکتیں، لیکن اللہ نے ہمیں دل عطا کیا ہے، جس کے ذریعے ہم اللہ کو یاد کرسکتے ہیں، ہمیں اللہ نے زبان دی ہے جس کے ذریعے ہم اللہ کی تعریف کرسکتے ہیں۔ اس دنیا میں اللہ کی قربت پانے کا اہم ذریعہ اللہ کی یاد ہے۔ انسان جتنا زیادہ اللہ کو یاد کرتا ہے اتنا ہی زیادہ وہ اللہ سے قریب ہوتا ہے۔ اور جتنا زیادہ وہ اللہ سے قریب ہوتا ہے اتنا ہی زیادہ اللہ اس سے قریب ہوتا ہے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق اس سے تعلق رکھتا ہوں اور جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگر وہ اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھے مجلس میں یاد کرتا ہے تو میں اس سے بہتر مجلس میں اسے یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے ایک بالشت قریب آتا ہے تو میں اس سے ایک ہاتھ قریب ہو جاتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے ایک ہاتھ قریب آتا ہے تو میں اس سے دو ہاتھ قریب ہو جاتا ہوں اور اگر وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کے پاس دوڑ کر آ جاتا ہوں‘‘۔ (صحیح بخاری)
دل میں کس کا خیال بسے، اسے لے کر نفس اور روح میں کش مکش رہتی ہے۔ نفس چاہتا ہے کہ دل دنیا کے خیال میں منہمک رہے، روح چاہتی ہے کہ دل اللہ کی یاد سے معمور رہے۔ روحانیت یہ ہے کہ انسان دنیا کی چیزوں کو اللہ کی نعمتیں شمار کرتے ہوئے اور ان سے لطف اندوز ہوتے ہوئے اللہ سے لو لگائے۔