شیخ حسینہ حقوق چھین کر موت بانٹ رہی ہیں؟

342

بنگلا دیش میں 13 دن کے مظاہروں، شہادتوں کے بعد آخر کار امن کی زخمی فاختہ کی مرہم پٹی ہو رہی ہے۔ اس دوران بابائے بنگال کی بیٹی شیخ حسینہ بنگالیوں کے حقوق چھین کر ان کو موت بانٹتی رہی ہیں لیکن سونار بنگال کے طلبہ و طالبات اور ان کے والدین نے لازوال قربانیاں دے کر ایک نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے پوری دنیا کے مسلمانوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ گھر بیٹھے کچھ نہیں ملتا ظالم حکمرانوں کے سامنے آگ اور خون کا دریا ڈوب کر پار کرنا پڑتا ہے۔ بنگالی جوانوں کے لہو لہان لاشے اور لازوال مظاہروں نے شیخ حسینہ کو مجبور کر دیا کہ وہ عوام کے مسائل کو سنے اور ان کا فوری حل تلاش کرے۔ گا، گی اور گے کا سلسلہ جاری رہا تو اپنے باپ کی طرح تم بھی ’’تھی‘‘ ہو جاؤ گی۔ طلبہ کی جانب سے مطالبے میں کہا گیا ہے کہ وہ تمام سول اور امن وا مان کی ذمہ دار فورس جن کے جوانوں نے عوام پر گولیاں چلائی ہیں ان کو برطرف اور گرفتار کیا جائے۔ شیخ حسینہ عوام سے معافی مانگیں اور شہید طلبہ کے لواحقین کو فوری سرکاری ملازمت دیں۔ انہوں نے یہ مطالبہ کیا ہے اگر وزیر اعظم فوری استعفا دیں یہ ان کے لیے بہتر ہے۔ تحریک ابھی رکی ہے ختم نہیں ہوئی، ضرورت پڑی دوبارہ شروع کی جاسکتی ہے۔
بانی بنگلا دیش مجیب الرحمان اپنے آپ کو بنگالیوں کے حقوق کا علمبر دار کہتے رہے ہیں۔ ’’اس عجب پیار کی غضب کہانی‘‘ کی شروعات بنگالیوں کے حقوق سلب کرنے سے ہوئی۔ پاکستان کے خلاف لڑنے والوں اور پاکستان سے محبت کرنے والوں کو قتل کرنے والے مکتی باہمی کے غنڈوں کو مجیب کوٹے کی سرکاری ملازمت دیتے رہے ہیں۔ پہلے 10 پھر 15 اور اس کے بعد 30 فی صد کوٹے پر ملازمت مکتی باہنی کو دی گئی۔ یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اس کی مدد سے عوامی لیگ نے پویس اور فوج میں اپنے کارکنان کو ملازمت دی جنہوں نے 15 جولائی کو شروع ہونے والے مظاہرین طلبہ و طالبات کو براہ راست فائر سے شہید اور شدید زخمی کیا۔
آج سے 53سال قبل بنگالیوں کے حقوق کے نام پر قائم ہونے والی ریاست بنگلا دیش جہاں بانی شیخ مجیب کی بیٹی شیخ حسینہ اقتدار پر قابض ہیں۔ بھارت کی سازش کے ذریعے بنگلا دیش کو آزاد کرایا گیا تھا جہاں بھارتیوں کو حقوق زیادہ اور بنگالیوں کم حقوق میسر ہو سکے۔ آج بنگلا دیش کے بیرون ملک مقیم شہری پاکستان میں موجود بنگلا دیشی شہریوں سے پاکستان میں اپنے رشتے داروں کو ای۔ میل اور فون کر کے ڈھاکا کی صورتحال معلوم کرنے پر مجبورکر دیے گئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ بیرون ِ ملک کام کرنے اور تعلیم حاصل کرنے والے بنگلادیشیوں کے فون کالز کو بنگلا دیش میں جام کر دیا جاتا ہے۔ وہ پاکستان کی حکومت سے درخواست کر رہے ہیں کہ اپنے ذرائع استعمال کرتے ہوئے بنگلا دیشی عوام کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔ اس سلسلے میں یہ بھی معلوم ہوا ہے اب تک 300 سے زائد بنگالیوں کی شہادت ہو چکی اور متعدد ابھی بھی غائب ہیں۔ اس ضمن میں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ گرفتار 27 طلبہ کو جیل میں تشدد کر کے شہید کر دیا گیا ہے اس لیے درجنوں طلبہ مغربی بنگال میں پناہ لینے پر مجبور ہیں لیکن عوامی لیگ کے پولیس اور فوج میں موجود غنڈے مظاہرین طلبہ کے گھروں پر حملے کر کے اہل خانہ کو گرفتار کر رہے ہیں۔
اب بھی بنگلا دیش میں پْرتشدد مظاہروں کا سلسلہ رْکنے کا نام نہیں لے رہا۔ ماہِ رواں کے دوران ہزاروں طلبہ نے سرکاری ملازمتوں میں مکتی باہنی کے غنڈوں کی اولاد کے لیے 30 فی صد کوٹے کے خلاف سڑکوں پر آنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہائی کورٹ نے 2018 میں ختم کیا جانے والا کوٹا بحال کردیا تھا۔ جب حکومت نے عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا تو اْس نے 13 جولائی کو کوٹے کی بحالی روک دی تھی۔ گزشتہ روز عدالت عظمیٰ نے ایک بار پھر سماعت کی اور طلبہ کو اطمینان دلانے کے لیے رولنگ دی کہ کوٹا بحال نہیں کیا جائے گا مگر اس کے باوجود ملک بھر میں طلبہ کا احتجاج جاری ہے۔ طلبہ کے ایک گروہ کا کہنا ہے جب تک حکومت مطالبات کی منظوری کا حکم نامہ جاری نہیں کرتی، احتجاج ختم نہیں ہوگا۔ 10 دن کے احتجاج کے دوران بنگلا دیش میں طلبہ سمیت 250 سے زائد افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ 500 طلبہ گرفتار کیے جاچکے ہیں۔ سیل فون اور انٹرنیٹ سروس دس دن سے بند تھی جس کو 23 جولائی کو کھول دیا گیا ہے اور اسی رات 12 بجے پورے ملک سے کرفیو بھی ختم کر دیا گیا ہے۔ لیکن بنگلا دیش کے 62 اضلاع میں دکھ اور افسوس کا سماں ہے اور لوگ شہیدوں کے ساتھ کھڑے نظر آرہے ہیں۔
شیخ حسینہ 2009 سے وزیر ِاعظم ہیں۔ جنوری 2024 میں وہ پانچویں بار وزیر ِاعظم بنیں انہوں ایک ماہ قبل یہ بھی خبر دی تھی کہ ان کو گوروں نے کامیاب کرایا ہے اور گورے خطے میں ایک کرسچن حکومت کے قیام میں بنگلا دیش سے مدد مانگ رہے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں نے اْن پر انتخابی دھاندلی کا الزام عائد کیا تھا۔ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا۔ عدالت عظمیٰ کی یقین دہانی اور فوج کے طلب کیے جانے کے باوجود بنگلا دیش میں طلبہ کا احتجاج تھم نہیں رہا تو اب سیاسی مبصرین اندازہ لگا رہے ہیں کہ اس تحریک کی پشت پر کون یا کون کون ہوسکتا ہے۔ اب تک طلبہ کے کئی لیڈر، انسانی حقوق کے کارکن اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سیاست دان گرفتار کیے جاچکے ہیں مگر پھر بھی ملک گیر احتجاجی تحریک کہیں سے بھی رْکتی یا کمزور پڑتی دکھائی نہیں دے رہی۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں غیر معمولی مہنگائی ہے۔ لوگ مہنگائی، بے روزگاری اور افلاس سے تنگ آچکے ہیں۔
عوامی لیگ کے وہم گمان بھی نہیں ہوگا اس کا ڈھاکا کے میرپور اسٹیڈیم میں منعقدہ جلسہ ممکن نہیں ہو گا۔ اس لیے کہ احتجاج میں شریک طلبہ کی بڑی تعداد نے جلسے کے مقام پر پہنچ کر اسے ختم کرا دیا۔ رپورٹس کے مطابق جلسہ گاہ کو مشتعل طلبہ نے عوامی لیگ کے جلسے کے لیے لگائی گئی کرسیاں اور دیگر ساز وسامان بھی توڑ دیا۔ اس کے ساتھ ہی یہ بات یاد آگئی کہ 1971ء کے الیکشن سے قبل ڈھاکا کے پلٹن میدان میں بھی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کی دوسری بڑی پارٹی جماعت ِ اسلامی کا جلسہ اُکھاڑ دیا تھا ہم تو یہ بات برسوں سے بتا رہے ہیں کہ بنگلا دیش بھارت کی ریاست ہے لیکن ہمارے نام نہاد دانشور اور یہ بات سمجھانے میں مصروف ہیں کہ بنگلا دیش بنگالیوں کو حق دینے کے لیے بنایا گیا ہے۔ یہ سب کچھ ایک مفروضے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔