صرف مارشل لاء کے خطرے پر کیوں؟

319

عدالت عظمیٰ کے فاضل جج جسٹس اطہر من اللہ نے ’’نیویارک سٹی بار‘‘ میں امریکی قانون دانوں اور وکلاء کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ میری خواہش ہے کہ جب بھی مارشل لاء کا خطرہ ہو، عدالتیں کھلی رہیں، جیساکہ سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے کے وقت رات 12 بجے عدلیہ کے دروازے کھول دیے گئے تھے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سربراہ کی حیثیت سے رات میں عدلیہ کھولنے کا فیصلے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں اس ٹی وی چینل کا نام لینا نہیں چاہتا جس نے ایسا ماحول بنا دیا تھا جیسے مارشل لاء لگنے والا ہو، دروہ ٔامریکا کے دوران میں عدالت کے فاضل جج کا یہ تبصرہ ایسے ماحول میں آیا ہے، جب پاکستان میں ایک بار پھر ذرائع ابلاغ کے بعض حصوں میں یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ایمرجنسی کے نام پر مارشل لاء یا فوجی حکومت قائم ہوجائے گی۔ فاضل جج نے اپنے خطاب میں پاکستان کے موجودہ سیاسی بحران کو ماضی کا تسلسل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ قانون کی عملداری اور آئین کی بالادستی نہ پنپنے کی وجہ ان قوتوں کی مداخلت ہے جن کو حکمرانی کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ اس وقت بھی بظاہر ایک سیاسی حکومت قائم ہے جیسے ہایبرڈ نظام حکومت کی اصطلاح دی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ ہائیبرڈ نظام حکومت آئین کے خلاف آئین کے مطابق سول اور عسکری اداروں کے ارکان کے لیے سیاست میں حصہ لینا غیرقانونی ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ آئین کے تقاضے کے برخلاف ایسی سیاسی جماعتوں کی حکومت قائم کی گئی ہے، جنھیں عوام نے 8 فروری کے انتخابات میں مسترد کر دیا۔ یعنی فاضل جج کے الفاظ میں پاکستان کے سیاسی بحران کا سبب یہ ہے کہ جن کو حکومت کرنے کا حق حاصل نہیں ہے عملاً ان کی حکومت ہے۔ سیاسی جماعتوں کی حکومت ہونے کے باوجود شہری آزادیاں سلب کر لی گئی ہیں، انسانی حقوق کی بدترین پامالی کی جارہی ہے۔ فاضل جج کے ارشاد کے مطابق عدلیہ طاقتور طبقے یعنی فوج کی مداخلت روکنے میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہے، اس تناظر میں انہوں نے اظہار تاسف کرتے ہوئے کہا کہ کاش 5 جولائی کو بھی عدالتیں کھلی ہوتیں جب جنرل ضیاء الحق نے ایک منتخب وزیراعظم کو ہٹایا تھا، کاش 12 اکتوبر 1999ء کو بھی عدالتیں کھلی ہوتیں جب جنرل پرویز مشرف نے منتخب وزیراعظم کا تختہ پلٹا تھا، اس کاش کی تکرار سے بہتر ہے کہ عدالتیں انصاف کے لیے ہمیشہ کھلی رہنی چاہئیں،صرف مارشل لاء کے خطرے پر کیوں؟ عدالتوں نے اگر کبھی فوجی مداخلت کے خلاف فیصلہ دیا ہے تو اس وقت جب پرانا جنرل معزول ہو جاتا کسی تازہ دم جرنیل کو ایسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا جو کسی سیاسی تبدیلی کا سبب بنتی۔ اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ پاکستان میں کوئی سیاسی شخصیت مقبول عوام نہیں ہوئی جس کے پاس قوم کے لیے واضح نصب العین سیاسی پروگرام موجود ہو، مقاصد زندگی کے شعور اور ایسی منظم ٹیم کا فقدان رہا فوجی اور سول آمریت کا مقابلہ کر سکے، اب ایک بار پھر یہ منظر ہے کہ مقبول سیاسی قیادت جیل میں ہے، مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی کی اتحادیوں کی حمایت سے قائم ہے، جس نے تحریک عدم اعتماد کے وقت یہ کہا تھا کہ عمران خان کی ناتجربہ کار حکومت نے عوام کو مہنگائی کے عذاب میں مبتلا کر دیا ہے۔ یہ حقیقت تھی کہ ساڑھے تین سالہ حکومت کے اقدامات نے زوال پذیر سیاسی جماعت کو زندہ کر دیا ہے۔ لوگوں نے یہ دیکھا کہ تحریک عدم اعتماد کی پشت پر کون ہے؟ موجودہ حکومت کی غیرمقبولیت نے سیاسی منظرنامہ تبدیل کر دیا ہے، آئی ایم ایف، عالمی بنک اور امریکا کے احکامات اور حکمراں اشرافیہ کی بدعنوانی اور کرپشن نے اقتصادی بحران کو اتنا شدید کر دیا ہے کہ جس نے سیاسی بحران کے ساتھ سماجی بحران بھی پیدا کر دیا ہے۔ آئی ایم ایف کے حکم پر پی ڈی ایم کی حکومت نے جو بجٹ پیش کیا ہے اس نے بڑے سرمایہ داروں، صنعتکاروں، چھوٹے اور درمیانے درجے کے تاجروں سب کو احتجاج پر مجبور کر دیا ہے۔ وزیراعظم کا تو دعویٰ یہ ہے کہ فی الحال ہم نے ملک کودیوالیہ ہونے سے بچا لیا ہے۔ لیکن اب یہ سوال بھی قوم کے سامنے ہے کہ کیا واقعی دیوالیہ ہو جانے کی صورت میں بھی اتنی ہی تباہی آتی جتنی دیوالیہ ہونے سے بچ جانے کی صورت میں آئی۔ زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد اپنی اپنی سطح پر احتجاج کر رہے ہیں، لیکن قوم کے تمام طبقات کو مل کر احتجاج کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے ماحول میں جس میںپاکستان کو ’’جبرستان‘‘ بنا دیا گیا ہے عوامی احتجاج کے سواکوئی راستہ موجود نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کے دیے ہوئے بجٹ کے خلاف احتجاج وقت کی آواز ہے۔ موجودہ پی ڈی ایم کی حکومت نے اپنی دونوں مدتوں میں ایسے قوانین پارلیمان سے منظور کرا لیے ہیں جو اظہار رائے کی آزادی کو پابند اور قید کر رہے ہیں۔ اس صورت میں قوم کی نظریں عدلیہ کے اوپر ہیں، 2007ء کے بعد سے عدالتی فعالیت جاری ہے، جب اس وقت کے عدالت عظمیٰ کے سربراہ کو انٹیلی جنس ایجنسی کی رپورٹ کی بنیاد پر جنرل پرویز مشرف نے معزول کر کے اپنی حراست میں لے لیا تھا۔ اگر عدالتیں ہمیشہ کھلی رہیں تو سب کو دائرے میں رکھنا آسان ہو جائے گا ۔