وطن کی تبا ہی اور با بوئوں کی مر ا عا ت

349

قو می ترا نے کے خالق، حفیظ جالندھری نے ایک مرتبہ کہا تھا
جہاں کہیں انقلاب ہوتا ہے… قدرت اللہ شہاب ہوتا ہے۔

صاحبو، قدرت اللہ شہاب ہمارے وطن کے وہی سب سے بڑے بابو ہیں جنہوں نے اپنی بائیو گرافی شہاب نامہ کے عنوان سے تحریر کی تھی۔ مجھے یہاں زیادہ وضاحت کی ضرورت یوں نہیں کہ حفیظ جالندھری کے شعر سے وا ضح ہے پاکستان کے وجود میں آنے کے ابتدائی برسوں میں جو دھڑا دھڑ حکومتیں تبدیل ہو رہی تھیں اور ملک تباہی کی جانب گامزن ہو رہا تھا تو اس کے پیچھے شہاب کی صورت میں کس قدر افسر شاہی کا ہاتھ ہوتا تھا اور اب بھی ہے۔ بے شک اس ملک کو تباہی کے دہانے تک پہنچانے میں ہمارے سیاست دان بھی شریک ہیں۔ لیکن وہ مستقل طور پر اقتدار سے جڑے تو نہیں رہتے۔ یعنی ایک عرصہ کے بعد انہیں اقتدار سے علیٰحدہ ہونا ہی ہوتا ہے۔ مگر بات ہے بیوروکریسی اور اس کے اعلیٰ عہدوں پہ فائز بابوئوں کی یہ اپنی کرسیوں سے جڑے رہتے ہیں، خواہ کسی بھی سیاسی جماعت کی حکومت ہو۔ اور یہ بابو عوام کی حالت زار سے مکمل طور پر لاتعلق نظر آتے ہیں۔ جہاں عام آدمی اپنی زندگی گزارنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے، وہیں یہ بابو اقتدار سے لطف اندوز ہوتے ہوئے عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں اور اپنا پروٹوکول، مراعات، لگژری گاڑیاں، محلات چھوڑنے کو تیار نہیں۔ خاص طور پر افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ عوام کے دکھوں سے بالکل غافل نظر آتے ہیں۔ وہ اپنے پرتعیش طرز زندگی سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں، محلات میں رہتے ہیں اور لگژری گاڑیوں میں گھومتے ہیں، جب کہ باقی ملک مہنگائی کی آگ میں جل ریا ہے۔

امیر اور طاقتور لوگ اپنا سرمایہ، پبلک کی نظر میں لانا نہیں چاہتے۔ اور ہاں، عوام کی آنکھوں میں دیانت دار بھی نظر آنا چاہتے ہیں۔ یہ ابھی تک اپنے آقاؤں کے بنائے ہوئے ضابطوں کے سہارے چل رہے ہیں جن کا ان کے اپنے ملکوں میں کوئی تصور ہی نہیں۔ انگریزوں نے ہم پر حکمرانی کے لیے جو ضابطے بنائے تھے یہ وہی ضابطے عوام پر حکمرانی کے لیے سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ دراصل آفیسر لفظ کو اتنا رعب دار بنا دیا گیا ہے جیسے یہ کسی اور جہاں کی مخلوق ہوں اور اس ماحول نے آفیسرز کی گردنوں میں ایسے سریے ڈال دیے ہیں کہ وہ کسی کی داد رسی تو کیا اس کو ملنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ ان کا ماحول ان کے تکبرکے پارے کو نیچے آنے ہی نہیں دیتا۔ حالانکہ ایک سادہ سا لفظ ہے جس کے معنی ہیں ’’دفتری‘‘۔ اور یہاں آفیسر کا مطلب ہے کہ اس کے آگے پیچھے خدمت گار ہونے چاہیں جو اس کو پروٹوکول مہیا کریں اور عوام پر اس کا رعب ہو۔ جب کوئی شہری اپنی حق تلفی کے لیے کسی دفتر میں جا کر اپنی روداد ہی نہیں سنا سکتا۔ دفتر کے باہر ملازم کا مقصد ہی یہ ہے کہ کوئی اندر نہ جا پائے تو پھر ہماری اخلاقیات اور تعلیم وتربیت میں اپنے اندر اس سوچ اور جذبے کو پیدا کرنا ہوگا جس کا تعلق اپنی ذات سے بڑھ کر ملک و قوم کے بہتری سے ہو۔ کوئی جج ہو، جرنیل ہو، بیوروکریٹ ہو یا سیاستدان سب کے پاس اسی ریاست کے مہیا کردہ اختیارات اور وسائل ہیں جو اس قوم کی امانت ہیں جن کا مقصد ریاست اور عوام کی فلاح و بہبود ہے نہ کہ ذاتی مفادات کے لیے ان کا استعمال۔ بات وہی ہے کہ بیوروکریسی کے اندر کرپشن نے موجودہ معاشی بحران میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ بدعنوان اہلکار غبن اور منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں اور یہ کرپشن بھی پاکستان میں ڈالر کی قلت کی وجوہات میں سے ایک ہے۔ حکومت ہر دور میں ان بدعنوان اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کرنے میں ناکام رہی ہے جس کی وجہ سے عوام کا ہر حکومت اور معیشت پر اعتماد کا فقدان ہے۔

موجودہ معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے بیوروکریسی کے اندر کرپشن کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔ اسے افغانستان میں ڈالر کی غیر قانونی منتقلی اور ایران کے ساتھ تجارت کو روکنے کے لیے بھی اقدامات کرنے ہوں گے۔ حکومت برآمدات کی حوصلہ افزائی کرے اور برآمدات بڑھانے کے لیے کاروباری اداروں کو مراعات فراہم کرے۔ برآمدات میں اضافے سے ملک زیادہ غیر ملکی کرنسی کمائے گا جس سے شرح مبادلہ کو مستحکم کرنے میں مدد ملے گی۔ پچھتر سال ہوئے اس ملک کو بنے ہوئے، 75 سال سے ہم اس ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کی راہ تک رہے ہیں لیکن اسلامی نظام کے نہ آ پانے کی بنیادی وجہ ان بابوئوںکی پھیلائی ہوئی کرپشن ہے کیونکہ اسلامی نظام میں سزائیں اسلامی ہوں گی، کرپٹ حکمران اور کرپٹ بابو کبھی اس نظام کو نہیں لانے دیں گے۔ ہم سب ایک بات جانتے ہیں بلکہ توتے کی طرح صرف بولنے کی حد تک ہی رٹی ہوئی ہے کہ اللہ پاک فرماتا ہے کہ جیسے اعمال ویسے حکمران، جب تک کوئی قوم خود اپنی حالت نہیں بدلتی میں اس کی حالت نہیں بدلتا، جب جب ہمارے حکمرانوں کے کارنامے سامنے آتے ہیں یہ جملہ ہماری زبانوں پہ آتا ہے کہ کیا کریں ہمارے اعمال ہی کا نتیجہ ہیں۔ جب ہم جانتے ہیں کہ حکمران ہمارے اعمال کا نتیجہ ہیں، ہم نہیں بدلتے تو حالات کیسے بدلیں گے، اللہ پاک کی مدد و نصرت کہاں سے آئے گی۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس ملک کو یہاں تک پہنچانے میں سارا قصور حکمرانوں اور بیورو کریسی کا ہے، بلکہ اس میں ہم عوام کا کیا دھرا بھی شامل ہے۔ ہم پورا دن سوشل میڈیا پہ، چوکوں چوراہوں پہ لمبی لمبی دانشوریاں جھاڑتے ہیں لیکن اللہ پاک کی سنت کہ پہلے خود کو بدلو اس پہ دھیان نہیں دیتے، ہم خود چور ہیں کیا ہم کسی اچھے آدمی کو برداشت کریں گے؟ کبھی نہیں، جب تک ہم خود ٹھیک نہیں ہوں گے، خود کرپشن اور خیانت سے باز نہیں آئیں گے، اس کے خلاف نہیں اٹھیں گے، خود اپنے اندر تبدیلی نہیں لائیں گے تب کوئی بھی اس ملک کی تقدیر نہیں بدل سکتا یہ بات سمجھنے کی کوشش کریں تو سہی۔

میں آپ کو نہیں کہہ رہا کہ آپ اسٹیبلشمنٹ پہ تنقید نہ کریں، آپ عدلیہ کو نہ کوسیں، آپ ملک کی معیشت اور امیج کو تباہ برباد ہوتے دیکھیں، کبھی نہیں۔ یہ ملک میرا اور آپ کا ہے کسی اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ یا حکومت کا نہیں۔ ہم وہی کریں گے، اسی کا ساتھ دیں گے جو ٹھیک ہوگا لیکن سب سے پہلے خود کو تو بدلیں ناں۔ اللہ کی سنت کو تو ذہن میں رکھیں کہ پہلے خود کو بدلو پھر حالات بدلوں گا ورنہ جتنی ٹکریں مارنی ہیں مارتے رہو کچھ نہیں ہوگا۔ ہم سارا دن چین چین کرتے ہیں تو چین کی حالت ہم سے ہزاروں گنا زیادہ بری تھی، لیکن پھر چین کی عوام کو سمجھ میں آیا کہ ہم اپنے اندر سے حالات بدلیں گے تو حکمران بدلیں گے اور پھر چین میں انقلاب آیا اور آج چین کہاں کھڑا ہے کیسے اللہ نے چین کی حالت بدل دی۔ دوستو، میرے عزیزوں مجھ سے لاکھ اختلاف کرلو لیکن اللہ کی بات مانے بغیر کچھ نہیں ہوگا، اب اٹھ جاؤ گالم گلوچ اور گلے شکوے چھوڑ کر اٹھ جاؤ، اللہ کی سنت پہ پورا اترو، اللہ پاک کے حکم کے مطابق خود کو بدل لو۔ دنیا میں مغرب، چین، روس جس جس نے خود کو بدلا ہے اسی نے اقوامِ عالم پہ حکومت کی ہے۔ انہیں تو شاید اللہ کی اس سنت کا علم ہی نہیں لیکن آپ کو اور مجھے تو ہے پھر ہم اِدھر اُدھر ٹکریں کیوں ما رہے ہیں، خود بدلیں گے تو حکمران بھی ہم سے اچھے نکلیں گے ورنہ کچھ نہیں بدلنا جسے چاہے برا بھلا کہو۔