ڈاکٹر ملیحہ لودھی کا شمار پاکستان کی ان سدا بہار شخصیات میں ہوتا ہے جو ہر دور اور ہر موڑ پر ریاست کی ذمے داریوں کے لیے بروئے کار آتی ہیں۔ یوں وہ ایسی غیر سیاسی ٹیکنوکریٹ کلاس کا حصہ ہیں جو پاکستان کی مقتدرہ کی معاونت کے لیے ہر موڑ اور موقع پر موجود ہوتی ہے۔ اسی لیے ان کی کسی بات کو سیاسی آلودگی سے پاک دیکھا جاتا ہے۔ ایک انگریزی اخبار کی ایڈیٹر کے صحافتی سفر کے بعد سفارت کاری کی دنیا میں قدم رکھا تو پھر اسی کی ہو کر رہ گئیں۔ اس کے باوجود تجزیے اور قلم وقرطاس سے بدستور جڑی ہوئی ہیں۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب اور امریکا میں سفارتی ذمے داریاں ادا کرکے ان دنوں غالباً عارضی وقفے کے طور پر محو استراحت ہیں۔ اگلے مہینے پاکستان کے قیام کی ستترویں سالگرہ منائی جائے گی۔ ستتر برس کا سفر داغ داغ اُجالا اور شب گزیدہ سحر میں ڈھل کر رہ گیا۔ پاکستان کی ستترویں سالگرہ کے حوالے سے ملیحہ لودھی کا ایک تجزیاتی کالم عرب نیوز سمیت کئی بین الاقوامی اخبارات میں شائع ہوا ہے۔ اس مضمون میں انہوں نے پاکستان کے ماضی حال اور مستقبل کا بہت دیانتدارانہ انداز میں جائزہ لیا ہے۔ گوکہ کچھ حقیقتوں کا انہوں نے انگریزی اصطلاحات کے پردے میں لپیٹ کر پیش کیا مگر اس کے باوجود انہوں نے پورے سفر کا تجزیہ غیر جذباتی انداز میں کیا ہے۔ ملیحہ لودھی اپنے کالم یوں رقم طراز ہیں۔
’’تقریباً ایک ماہ بعد سے بھی کم عرصے میں پاکستان اپنی آزادی کی ستتر ویں سالگرہ منائے گا۔ یہ جشن کا لمحہ ہوگا بلکہ عکاسی بھی کیونکہ اس ملک نے بہت سے شعبوں میں قدم بڑھائے ہیں لیکن یہ اب بھی اپنی امید افزا صلاحیت سے محروم ہے۔ یہ اپنے بانیوں کے وژن سے بھی دور ہے جنہوں نے اسے عوام کی ضروریات اور خواہشات کے مطابق ایک مستحکم لبرل اور جمہوری ملک بنانے کا خواب دیکھا تھا۔ اپنی آزادی کے ستتر ویں برس پاکستان نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ یہ عدم استحکام کا شکار ہے اور مستقبل کے بارے میں امیدیں بھی کم ہیں۔ آج اسے متعدد سنگین چیلنجز کا سامنا ہے جن میں گورننس معاشی اور سیاسی بحران سیکورٹی اور تعلیم اور بے قابو آبادی جیسے مسائل شامل ہیں جو ایک دوسرے کو تقویت دینے کے لیے اکٹھے ہورہے ہیں اور کسی ایک بحران سے زیادہ خوفناک صورت حال پیدا کر رہے ہیں۔ اس کی سب سے اہم وجہ تنگ نظر طبقہ اشرافیہ جس نے طویل عرصے سے سیاست پر غلبہ حاصل کرکے ملک کی معیشت کو کنٹرول کیا ہے‘‘۔
ملیحہ لودھی نے ایک طویل کالم میں حالات کی ذمے داری طبقہ اشرافیہ پر ڈالی ہے۔ طبقہ اشرافیہ کی بھی کئی پرتیں ہیں جن میں سب سے طاقتور حصہ اس سسٹم کا نیوکلیس ہے اور نیوکلیس کا نام مقتدرہ ہے۔ جو پاکستان کی ایک مستقل حقیقت ہے۔ باقی سیاست دان ہوں، جاگیر دار یا سرمایہ دار سب سائیڈ کیریکٹر ہیں جو نظریہ ضرورت کے تحت بدلتے رہتے ہیں۔ مثلاً ایک دور تھا جب ملک میں بائیس خاندانوںکا چرچا تھا۔ ہر شخص یہ رونا روتے نظر آتا تھا کہ ملکی معیشت کو بائیس خاندانوں کا گھن چاٹ گیا ہے۔ یہ ملک کے بڑے صنعت کار تھے جنہیں ایوب خان نے ممدوٹ اور دولتانہ جیسے جاگیردار سیاست دانوں کے مقابلے میں ریاست کا شراکت دار بنا کر مضبوط بنایا تھا مگر ان میں اکثر قیام پاکستان سے پہلے کے سرمایہ دار خاندان تھے جو کراچی اور ممبئی میں کاروبار سے وابستہ تھے۔ بائیس خاندانوں کی اجارہ داری کے زمانے میں ملک میں صنعتوں کا پہیہ بھی چلتا تھا اور بے روزگاری بھی عام نہیں تھی۔ ملک کی مجموعی پیداوار کی شرح بھی بہت اچھی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے صنعتوں کی نیشنلائزیشن کا عمل شروع کرکے بائیس خاندانوں کی اجارہ داری کو توڑ دیا۔ کاروباری طبقہ اپنا سرمایہ اُٹھائے یورپ اور امریکا چلا گیا اور یوں ریاست وسیاست میں بائیس خاندان قصہ ٔ پارینہ بنتے چلے گئے۔
ریاست پہلے کون سا کام ڈھنگ سے کر رہی تھی جو صنعتیں قومیانے کے بعد اس کا پہیہ رواں رکھنے کا کام سلیقے اور ہنر مندی سے انجام دیتی چنانچہ صنعت کا پہیہ رکنے کے عمل کا آغاز ہوگیا اور اس دوران اعلیٰ حضرت ضیاء الحق امریکی مونگ پھلی کی تلاش میں افغانستان جا پہنچے اور پاکستان نے دو سُپر طاقتوں کی لڑائی کا سار بوجھ افغان جہاد کی صورت میں اپنے ذمہ لے لیا۔ اس عرصے میں جاگیرداروں کا کردار محدود ہوتا چلا گیا اور مابعد ضیاء الحق منظر نامے میں میاں نوازشریف سرمایہ دار کلاس کے نمائندے کے طور پر سیاست میں داخل ہوئے انہوں نے سیاست سے جاگیرداروں کا کردار محدود کرکے شہری اور سرمایہ دار کلاس کو مضبوط کیا۔ یوں بڑے کھیل کے سائیڈ رول تیزی سے بدلتے چلے گئے۔ سوچ یہ رہی کہ ملک ایک شطرنج کی بساط ہے اس پر مہرے اتنی مہارت سے چلے جائیں کہ بساط پر گرفت اورغلبہ قائم رہے۔ اگر کوئی مہرہ خودسری پر آمادہ ہوجائے تو اسے طاقت کے ذریعے اس انداز سے شہ مات دی جا سکے کہ دوبارہ برسوں کوئی ایسی سوچ ذہن میں نہ لاسکے۔
کروڑوں کی آبادی اور متنوع قومیتوں کا وفاق سب کچھ ہوسکتا ہے مگر شطرنج کی بساط نہیں۔ علم، آگہی، عرفان اور بدلتے ہوئے وقت کے تقاضے اور ضرورتیں انسانوں کی سوچ اور مزاج کو بدل دیتی ہیں۔ اگر دیوار میں در نہ بنے تو اس سے ہمیشہ سرٹکرانے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ستتر برس سے پاکستان نہ ترقی کرتا ہے نہ سیاسی استحکام کا شکار ہوتا ہے۔ اس کا کچھ حصہ اور آبادہ مستقل میدان جنگ بن کر رہ گئی ہے جس میں ایک جنگ کا جاری رہنا اصول اور رواج سا بن کر رہ گیا ہے۔ کسی ملک کا پوٹینشل فرمائشی جنگوں میں نہیں ہوتا بلکہ اس کے پوشیدہ قدرتی وسائل اور ان کے ڈھنگ سے استعمال میں ہوتا ہے۔ دیانت داری اور قانون کی حکمرانی میں پنہاں ہوتا ہے۔ اس سفر کا سب سے تکلیف دہ موڑ وہ ہے جب یہ ملک دوحصوں میں بٹ گیا اور کٹا ہوا حصہ بہت سے حوالوں سے آگے نکل گیا۔ اس سب کے باجود پاکستان کا نازک موڑ اور دور ختم نہیں ہورہا اور اب تو مستقبل کی امیدیں بھی دم توڑتی جا رہی ہیں۔ امید ختم ہوجائے تو اس کا نتیجہ برین ڈرین کی صورت میں برآمد ہوتا ہے اور آج پاکستان میں یہی ہو رہا ہے۔ لاکھوں لوگ ہر سال ملک چھوڑ کر جارہے ہیں۔ پاکستان میں حکمران اشرافیہ کی دولت سات براعظموں تک پھیل رہی ہے مگر ملک رینگ رینگ کر آگے بڑھ رہا ہے۔ ایک بعد دوسری جنگ کا ٹوکا اس کے کندھوں پر لاد دیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے جنگ زدہ ملکوں میں خوش حالی کے بجائے بدحالی کا ڈیرے ڈالے رکھتی ہے۔ غیر مختتم نازک موڑ پر کھڑا پاکستان آج بھی راستہ اور گاڑی کا کانٹا بدلنے کے لیے کراہ رہا ہے۔ اس کی سیکورٹی سیاست اور معیشت چیخ چیخ کر راہ بدلنے کی دُہائیاں دے رہی ہے مگر بساط سلامت رہے، چال چلنے کی صلاحیت زندہ رہے اور شہ مات دینے کی مہارت زندہ رہے لوگ تنگ اور بیزار ہیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ رو دھو کر چپ ہوجانا ان کا مقدر ہے۔