دنیا بھر کے جن ملکوں نے جو قرض لیا وہ عوامی بہبود پر لگتا ہوا نظر بھی آتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان ملکوں کو کون سے ادارے قرض دیتے ہیں کن شرائط پر دیتے ہیں اور کیا بجٹ بھی ان کا آئی ایم ایف بنا کر دیتا ہے یا بجٹ اصلاحات آئی ایم ایف لکھ کر دیتا ہے۔ اور کیا مہنگائی بیروزگاری کی شرائط بھی آئی ایم ایف طے کرتا ہے اور کیا آئی ایم ایف عوام کو دی جانے والی ہر قسم کی سبسڈیز بھی ختم کرنے کی شرائط رکھتا ہے، کیا آئی ایم ایف یہ بھی کہتا ہے کہ جو بجٹ دیا جا رہا ہے اسے محکمہ موسمیات جیسے فضول کام پر خرچ کرنا ہے اور خبردار جو تم نے اس قرض کے ایک ارب ڈالر سے کوئی انڈسٹری لگائی یا سستی بجلی پیدا کرنے کی کوشش کی اور یہ پیسہ تعلیم، صحت اور انصاف پر کسی صورت نہیں لگنا چاہیے۔ کیا آئی ایم ایف ہدایت پر ہر چیز وافر مقدار میں ہونے کے باوجود مہنگائی ہی کرنی ہے۔ روزگار کے مواقع بند کرو۔ کیا آئی ایم ایف ایسے موقع پر کہ جبکہ پاکستان صرف ایک ارب ڈالر کے حصول کی خاطر آئی ایم ایف کی کڑی سے کڑی شرائط ماننے بلکہ ناک سے لکیریں نکلوا رہا ہو، حکم دیا جاتا ہے کہ یوکرین سے ایک ارب ڈالر کی جنگ زدہ گندم خریدو جس پر بارود کی دبیز تہہ جمی ہوئی ہے۔ یہی نہیں بلکہ قرض کی آڑ میں ہماری معاشرتی اقدار کو بھی نشانہ بنانا چاہتا ہے۔ ہمارا تعلیمی نصاب تک تبدیل کروانا چاہتا ہے۔
کیا ان ملکوں کے بجلی کے ٹیرف آئی ایم ایف طے کرتا ہے کیا پٹرولیم لیوی بڑھانے اور ہر پندرہ روز بعد پٹرولیم کے نرخ تبدیل کرنے کا کہتا ہے کیا بجلی مہنگی کرنے کا مسلسل مطالبہ آئی ایم ایف کرتا رہتا ہے۔ کیا ان ملکوں میں آئی پی پی جیسا درندہ صفت بھی کوئی ادارہ ہے کیا ہر دوسرے ہفتے بجلی مہنگی سے مہنگی کی جارہی ہے۔ کیا امریکا، بھارت، جرمنی، اسپین، میکسیکو کے عوام کی تنخواہ سے دو گنا صرف بجلی کے بل آرہے ہیں کیا وہاں کے عوام گھر کا اثاثہ بیچ کر گیس، بجلی، پانی کے بل بھر رہے ہیں۔
دوسری طرف نظر دوڑائیں تو صورتحال اور زیادہ ہولناک نظر آتی ہے۔ کیا ان قرض زدہ ملک کے حکمران ہزاروں ارب کی پراپرٹی کے مالک ہیں کیا وہاں جرنیل، جج، سیاسی لیڈرز جزیرے خرید رہے ہیں۔ پوری پوری فوڈ چینز خرید رہے ہیں۔ کیا وہاں لوگ خود کشیاں کر رہے ہیں کیا والدین روٹی نہ ہونے کی وجہ سے اپنے لخت جگر دریا برد کر رہے ہیں۔ کیا ان ملکوں کو کوئی یہ طعنہ دیتا ہے کہ ’’کل تک جو پاکستان ہاتھ میں بم لے کر ہم کو پریشان کیا کرتا تھا آج اس پاکستان کے ہاتھوں میں بھیک کا کٹورا ہے‘‘۔ کیا ان کے عوام کو یہ اندیشہ رہتا ہے کہ جو قرض لیا جارہا ہے وہ ان پر تو خرچ نہیں ہوگا البتہ اسلام آباد سے ہوتا ہوا واپس مغربی بینکوں میں پہنچ جائے گا۔ کیا وہاں انصاف کا اسی طرح قتل ہوتا رہتا ہے۔ کیا وہاں کم ظرف و بے ضمیر لوگ مسند انصاف پر برا جمان رہتے ہیں۔ کیا وہاں کے عوام یہی دہائی دیتے ہیں۔
مِٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو اب حشر اْٹھا کیوں نہیں دیتے
……
کرسی ہے یہ تمہارا جنازہ تو نہیں ہے
کچھ کر نہیں سکتے تو اتر کیوں نہیں جاتے
مختصر یہ کہ عوام کا عرصہ ٔ حیات تنگ رکھنے کے احکامات آئی ایم ایف دیتا رہتا ہے۔ نہیں ایسا نہیں ہے بلکہ اس کیس کو تین سو ساٹھ کی ڈگری پر گھما کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ جو ادارے بھی ان ممالک کو قرض دیتے ہیں وہ خالصتاً عوام کی فلاح و بہبود کے لیے دیتے ہیں عوام کو جہاں ضرورت ہوتی ہے یہ اربوں ڈالر کے قرضے وہیں استعمال ہوتے ہیں۔ اگر میکسیکو کو کارخانہ یا فیکٹری لگانا ہے تو آئی ایم ایف بڑی خوشی سے فیکٹری لگانے کے قرض دے گا۔ اگر اسپین کو سستی بجلی پیدا کرنے کے لیے ڈیم بنانے ہیں تو آئی ایم ایف بڑی خوش دلی سے قرض دیگا بعینہٖ امریکا کو عوام کا معیار زندگی برقرار رکھنے کے لیے ایک دو ارب ڈالر درکار ہیں تو آئی ایم ایف کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں۔
حکمرانوں کے چمچے کھرچے ایسی پوسٹس لگا کر عوام کو تسلی و تشفی دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ تم کیوں گھبراتے ہو دیکھو دنیا کے بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک بھی تو بڑے بڑے قرضے لیتے ہیں۔ لیکن شاید ان گماشتوں کو یہ نہیں معلوم کہ یہ ساٹھ اور ستر کی دہائی نہیں ہے جو تمہارے جھانسے میں عوام آجائیں گے یہ انٹر نیٹ کا دور ہے قوم باشعور ہے۔ دیکھتی سب ہے اگرچہ کہ بولتی نہیں ہے۔ یہ ہے وہ مختصر سا تجزیہ جو اس فرق کو ظاہر کردے گا کہ پاکستان پر قرض کے کیا محرکات ہیں اور اپنی برادری کے قرض کے کیا محرکات ہیں۔