وزیر دفاع خواجہ آصف کہہ رہے ہیں کہ ملک میں آئینی بریک ڈائون ہونے والا ہے۔ یہ کیا چیز ہے کیسے ہوگی انہوں نے اس کی کوئی وضاحت نہیں کی ہے۔ کچھ سیاسی شخصیات کہہ رہی ہیں کہ کچھ نہیں ہوگا۔ معاشی اشارات Economics Indicaters مثبت جارہے شرح سود کم ہوئی ہے۔ آئی ایم ایف سے ڈیل ہو گئی، سات ارب ڈالر قرض کے امکانات روشن ہیں۔ ایس آئی ایف سی میں لوگ سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار ہیں۔ بجلی کی مہنگائی پر عوام پریشان ہیں اس کے لیے بھی حکومت آئی پی پیز کے معاہدے دیکھ رہی ہے ان آئی پی پیز کو قوم پر مسلط کرنے والے یہی آج کے حکمران ہیں جنہوں نے اپنے کک بیکس کی لالچ میں یہ دعدہ کرلیا کہ آپ بجلی پیدا نہ کریں ہم آپ کو ادائیگی کرتے رہیں گے وہ بھی ڈالروں میں کریں گے۔ اب تو اس میں باہر کی آئی پی پیز کم اور ملکی سرمایہ داروں کی بہت زیادہ ہے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اپوزیشن، حکومت، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ اپنی پوزیشن سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ مخصوص نشستوں کے حوالے سے حکومت سے عدالت عظمیٰ کا فیصلہ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں اس لیے کہ حکومت تو پی ٹی آئی پر پابندی لگانے جارہی ہے۔ لیکن ابھی ہم مخصوص نشستوں ہی پر بات کرتے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے اپنے دو روزہ اجلاس کے بعد قوم کو یہ فیصلہ سنایا کہ وہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر عملدرآمد کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ اس بات کا فیصلہ کرنے کے لیے اجلاس بلانا کہ آیا عدالت عظمیٰ کا فیصلہ مانا جائے یا نہیں غیر ضروری ہی نہیں بلکہ غیر اخلاقی بھی ہے۔ہاں اگر اس لیے اجلاس بلایا جاتا کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو کب اور کیسے نافذالعمل کیا جائے اور تحریک انصاف سے کہا جائے کہ آپ اپنی مخصوص نشستوں کے لیے ناموں کی فہرست الیکشن کمیشن کو بھیجیں تو کچھ بہتر ہوتا۔ لیکن اس میں بھی انہوں نے عدالت عظمیٰ کے گیارہ ججوں کے اس ریمارکس کا جواب دینا ضروری سمجھا جس میں کہا گیا کہ عدالت عظمیٰ کا تین فروری کو بلے کے نشان کے حوالے سے جو فیصلہ آیا اس کی الیکشن کمیشن نے غلط تشریح کی ہے۔ پھر الیکشن کمیشن کا یہ کہنا کہ فیصلے پر عمل کے دوران کوئی مشکل ہوئی تو عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا جائے گا۔
خواجہ آصف صاحب کو ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ اکتوبر کے مہینے میں 8 فروری کے انتخابات کی بساط لپیٹ دی جائے گی۔ ان کا اشارہ شاید اس طرف ہے کہ اکتوبر میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ریٹائرہو رہے ہیں ان کی جگہ جو نئے چیف جسٹس آرہے ہیں انہوںنے ہی مخصوص نشستوں والا فیصلہ پڑھ کر سنایا تھا اور وہ ان 8 ججوں میں شامل ہیں جنہوں نے مخصوص نشستوں کو تحریک انصاف کو دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ اکتوبر تو ابھی بہت دور ہے ہمیں تو آئندہ ہفتے کا پتا نہیں کیا کچھ ہونے والا ہے۔
مخصوص نشستوں کا معاملہ الیکشن کمیشن سے پارلیمنٹ میں جائے گا وہاں اس پر ہنگامہ ہو سکتا ہے پھر یہ مسئلہ اسپیکر کے پاس جائے گا وہ اس کو روک سکتے ہیں آخر میں صدر پاکستان کے پاس مسئلہ جائے گا ہمارے ملک میں ایک دفعہ اب سے دس بارہ برس قبل آصف زرداری نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سخت بیان دیا تھا اس کے بعد جب وہ اسلام آباد گئے تو وزیر اعظم نواز شریف نے ان سے ملنے سے انکار کردیا تھا پھر انہیں دو سال کے لیے امریکا میں ٹھیرنا پڑا تھا۔ پھر جب وہ واپس آئے تو اس کے بعد سے عہد کرلیا کہ آئندہ وہ محتاط رہیں گے، اس لیے اوّل تو مخصوص نشستوں کا مسئلہ ان تک جانے سے پہلے ہی کسی منطقی انجام تک پہنچ چکا ہوگا لیکن اگر ان کے پاس آگیا تو وہ آنکھ بند کرکے حکم کی اطاعت کریں گے۔
ایسا لگتا ہے کہ حکومت یہ چاہتی ہے کہ یہ نشستیں اس کو واپس دلا دی جائیں تاکہ انہیں ایوان میں دو تہائی اکثریت حاصل ہوجائے اس کے بعد وہ آئینی ترمیم کے ذریعے اپنے چیف حضرات کو ایکسٹینشن دے سکتے ہیں اس میں دونوں اداروں کے چیف شامل ہو سکتے ہیں لیکن یہ ایک سہانے خواب کے سوا کچھ نہیں لیکن کبھی کبھی خواب کی تعبیر سیدھی سیدھی بھی ہوجاتی ہے اکثر تو خواب کی تعبیر الٹی ہی ہوتی ہے۔ دوسری طرف تحریک انصاف بھی اس فیصلے کے بعد کچھ اور رنگ میں آگئی ہے کہ ان کے اب اپنے شدید مخالف جے یو آئی سے محبت کی پینگیں بڑھ رہی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی نے اسمبلی توڑنے کا وعدہ کیا ہے اور استعفے بھی دینے کہا ہے ہم نے پی ٹی آئی سے مذاکرات کے لیے اپنی کمیٹی بنادی ہے یہ الگ بات ہے کہ بعد میں تحریک انصاف کے بیرسٹر گوہر نے اس کی تردید کی ہے کہ ایسا کوئی عندیہ نہیں دیاگیا ہے لیکن کچھ نہ کچھ اندرون خانہ بات چیت چل رہی ہے۔ اب اس سارے معاملات میں شفافیت نظر نہیں آرہی ہیں اسٹیبلشمنٹ کا کیا موڈ ہے، پارلیمنٹ کیا سوچ رہی ہے، اسپیکر کیا رول ادا کریں گے، عدلیہ کس طرح اب تک اس قول پر عمل کرے گی کہ ہم اب کسی کی ڈکٹیشن قبول نہیں کریں گے یہ سب چیزیں ایک ہفتے میں واضح ہو جائیںگی۔