40 خاندانوں کی مافیا

328

تاجروں اور صنعت کاروں کی قومی تنظیم وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت یعنی ایف پی سی سی آئی نے نجی بجلی گھروں کو بغیر بجلی فراہم کیے کھربوں روپے کی ادائیگی کے خلاف عدالت عظمیٰ میں جانے کا اعلان کردیا ہے۔ اسی کے ساتھ صارفوں کی تنظیم نے فوری طور پر حکومت سے بجلی کے نرخوں میں کم از کم 25 روپے فی یونٹ کم کرنے کا مطالبہ کردیا ہے۔ پاکستان کا اقتصادی بحران اپنی تاریخ کا بدترین بحران ہے، جس نے ہر شعبہ زندگی کو متاثر کیا ہے۔ بجلی کے ناقابل برداشت اور ظالمانہ بلوں کا مسئلہ اقتصادی بحران کی علامت بن چکا ہے اس کا اندازہ صرف ایک خبر سے کیا جاسکتا ہے کہ پنجاب کے دوسرے بڑے شہر اور ٹیکسٹائل کی صنعتوں کے حوالے سے پاکستان کا مانچسٹر کہلائے جانے والے شہر فیصل آباد کے ایک شہری نے معاشی حالات سے تنگ آکر خودکشی کرلی، پنجاب ہی کے ایک اور صنعتی و تجارتی مرکز گوجرانوالہ میں بجلی کے بل کی ادائیگی پر دو بھائیوں میں جھگڑا ہوا اور ایک بھائی نے دوسرے بھائی کو قتل کردیا۔ یہ دو خبریں ایک روز کی ہیں، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اقتصادی بحران نے شہریوں کے اعصاب کو کتنا متاثر کردیا ہے۔ موجودہ اقتصادی بحران کا نتیجہ یہ نکلا ہے صرف ایک برس کے اندر ہزاروں کار خانے بند ہوگئے ہیں، جس کا براہ راست اثر روزگار کے اوپر پڑتا ہے۔ بجلی کے نرخوں میں ہوش ربا اضافے کا بوجھ اب تاجر اور صنعت کار بھی اٹھانے میں ناکام ہیں۔ اسی لیے بجلی کے نرخوں میں اضافے کے خلاف صنعت کاروں کی ایک اور تنظیم میدان میں آئی ہے۔ پاکستان یارن مرچنٹس ایسوسی ایشن کے چیئرمین شیخ خلیل قیصر نے منگل کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت ٹیکسٹائل کے شعبے کو بچانے میں ناکام ہوگئی ہے، بجلی کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے ٹیکسٹائل کے شعبے کی 50 فی صد صنعتیں بند ہوگئی ہیں۔ ملک بھر کی 580 اسپننگ ملوں میں سے 29 فی صد ملیں بند ہیں۔ 440 نٹنگ ملوں میں 20 فی صد بند ہوگئی ہیں۔ انہوں نے مزید انکشاف کیا کہ 8 لاکھ 80 ہزار جیٹ مشینوں میں سے 32 فی صد مشینیں بند ہوچکی ہیں، ٹیکسٹائل سیکٹر کی مرحلہ وار بندش سے رواں سال برآمدات کا ہدف حاصل نہیں ہوسکے گا۔ فیصل آباد میں ڈھائی لاکھ پاور لومز میں سے 50 فی صد بند ہوچکی ہیں جس کی وجہ سے ایک لاکھ 25 ہزار مزدور بے روزگار ہوچکے ہیں۔ ایک دن میں صنعت کاروں اور تاجروں کی دو تنظیموں کی علاحدہ علاحدہ پریس کانفرنس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف بجلی کے نرخوں میں اضافے نے تاجروں اور صنعت کاروں کی چیخیں نکال دی ہیں، چاہے بالائی سطح کا تاجر و صنعت کار اور سرمایہ کار ہو یا درمیانے اور چھوٹے درجے کی صنعت سے وابستہ سب کا مطالبہ یہ ہے کہ بجلی کے موجودہ نرخوں پر صنعت و تجارت نہیں چل سکتی، گویا حکومت کے اقدامات جو وہ معاشی بحالی کے نام پرکررہی ہے مزید تباہی لارہے ہیں وفاق ایوان ہائے صنعت تجارت کی جانب سے بجلی کے نرخوں کے بارے میں پریس کانفرنس ٹیکسٹائل کی بڑی صنعتوں کی تنظیم اپٹما کے عہدیدار گوہر اعجاز نے کی ہے جو نگراں حکومت میں شامل رہ چکے ہیں۔ انہوں نے گھر کے بھیدی کی حیثیت سے گواہی دی ہے کہ پاکستان کے صرف 40 خاندانوں کی لوٹ مار نے پاکستان کی معیشت کا بھٹا بٹھا دیا ہے، پاکستان کی معیشت ایسی تھی کہ اس نے برے حالات کا مقابلہ کیا لیکن اب اجتماعی طور پر مزاحمت کی سکت ختم ہوگئی ہے۔ بجلی کے بحران کے حوالے سے اس دوران میں جو انکشافات ہوئے ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف نجی شعبے میں بجلی کی پیداوار کے عالمی معاہدے ہورہے ہیں وہ کتنے ظالمانہ ہیں، سابق وفاقی وزیر نے انکشاف کیا ہے کہ بجلی کی پیداوار کے لیے نجی شعبے سے جو معاہدے کیے گئے اس میں یہ شرط بھی شامل تھی کہ اگر حکومت ان سے پیداواری صلاحیت کی بنیاد پر بجلی نہیں خریدے گی تو بھی انہیں ادائیگی کی جائے گی، جس کی وجہ سے کئی ایسے بجلی گھر بھی ہیں جنہوں نے ایک یونٹ بھی بجلی نہیں بنائی لیکن انہیں اربوں روپے ادا کیے گئے۔ سابق وفاقی وزیر کے انکشاف کے مطابق تقریباً سو سے زیادہ بجلی گھروں کی ملکیت پاکستان کے 40 خاندانوں کی ہیں۔ اس لیے وہ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ حکومت کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ 24 کروڑ پاکستانیوں کی بقا زیادہ اہم ہے یا 40 خاندانوں کے لیے یقینی منافع حکومت کے اقدامات اور فیصلے کاروبار کو دیوالیہ کررہی ہے اور شہریوں کو خط ِ غربت سے بھی نیچے دھکیل رہی ہے۔ یہ صرف ایک شعبے کی صورت حال ہے جسے توانائی کا بحران کہا جاتا ہے، اس بحران نے بڑے سرمایہ داروں کو بھی متاثر کردیا ہے اور پہلی بار ایسی صورت حال نظر آئی ہے جس میں حکومت کی پالیسی کا دفاع کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ اسی لیے پالیسیوں کے مراکز پر ایسے لوگ نظر آتے ہیں جو اپنی فطرت کے اعتبار سے سفاک اور بے حس اور اپنی قوم کے حقیقی مصائب سے بے خبر۔ حالات کو بدلنے کے لیے وسیع تر جدوجہد کی ضرورت ہے۔ ریاست کے تمام ستون اپنے فرائض ادا کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں، اس کے شواہد سیاسی بحران سے نظر آتے ہیں جہاں مفاد پرستوں کے ایک چھوٹے سے طاقتور ٹولے نے عوامی مینڈیٹ کو لوٹ لیا اور اپنے استحصالی نظام کو عوامی احتساب سے بچانے کے لیے پورے انتخابی نتائج بدل دیے، جب ریاستی اداروں کی سطح پر کرپشن اور بدعنوانی کو طرز حکمرانی بنایا جائے تو گا تباہی سے وہ طبقہ بھی نہیں بچ سکے گا جو ریاستی طاقت کی بنیاد پر اپنے آپ کو محفوظ سمجھتا ہے۔