گزشتہ سات آٹھ برسوں میں مہنگائی کے دریا کا بند اس بری طرح ٹوٹا ہے کہ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اس کی زد میں کیا کیا نہ بہہ جائے۔ کچھ برسوں قبل مہنگائی بڑھتی ضرور تھی لیکن مہنگائی سے مزید مہنگائی کا وقفہ سال چھے مہینوں کا ضرور ہوتا تھا لیکن اب یہ منٹوں اور سیکنڈوں کے حساب سے بڑھ رہی ہے جو حقیقتاً لمحہ فکر ہے۔ لگتا ہے کہ اب شاید مہنگائی کے سیلاب کو قابو میں لانا کسی کے بھی بس کی بات نہیں رہی۔ انجام کار کیا ہوگا، یہ بات صرف اللہ کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا۔ مہنگائی کی اتنی بری صورتِ حال کے باوجود حکومت ِ وقت کا تقاضا ہے کہ عوام اس کے خلاف نہ تو کسی ردِ عمل کا مظاہرہ کریں اور نہ ہی کسی پر تشدد کارروائی کا حصہ بنیں یہ بات ویسے ہی ہے کہ ہم جتنا چاہے ماریں لیکن عوام کو چیخنے چلانے اور رونے پیٹنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ برا یا مشکل وقت صرف پاکستان پر ہی نہیں آیا ہوا، نہ جانے کتنی قوموں اور ملکوں پر اس سے بھی برے ایام گزرے ہیں لیکن اپنے اپنے برے دنوں سے وہی قومیں اپنے آپ کو نکالنے میں کامیاب و کامران ہو سکیں ہیں جن کے اربابِ اختیار و اقتدار خود بھی اپنے اپنے پیٹوں پر پتھر باندھ کر قوم کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنے میدان میں کودے ہوں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اس وقت بہت مشکل دور سے گزر رہا ہے لیکن افسوس کا مقام یہ ہے اس مشکل ترین گھڑی میں جو بھی رہنمایانِ قوم ہیں اور جو بھی نہ دیدہ اربابِ اختیار و اقتدار ہیں وہ قوم سے تو مسلسل یہ چاہ رہے ہیں کہ وہ گھاس کھائیں اور نانِ جویں پر گزارا کریں لیکن خود کسی بھی قسم کی عیاشیاں اور آرام ترک کرنے کے لیے تیار نہیں۔ عوام کا لہو تک نچوڑنے والے اپنے اوپر کسی بھی قسم کی کوئی پابندی لگانے اور مراعات میں کمی کرنے کے لیے تیار نہیں۔ عوام پر بے پناہ ٹیکس پر ٹیکس میں اضافہ تو ہوتا جا رہا ہے لیکن مہنگائی کے تناسب سے ملازمین کی اجرتوں میں یہ کہہ کر اضافے سے گریز کیا جا رہا ہے کہ ان کے پاس حکومت چلانے کے لیے بھی پیسے نہیں۔ یہی حکمران عوام کی مراعات یا ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنے کا جواز تو یہ پیش کر رہے ہیں کہ ان کے پاس پیسوں کی کمی ہے لیکن دوسری جانب ارکانِ اسمبلی، وزراء، سفراء اور حکومتی اعلیٰ عہدیداروں کی آمدنیوں اور مراعات میں تین تین سو فی صد اضافہ اس طرح کر رہی ہیں جیسے آسمان سے ڈالروں کی بارش ہو رہی ہو۔ یہ سب باتیں ان کے اس دعوے کی تردید ہیں کہ انہیں مجبوراً مشکل فیصلے کرنے ہی ہوں گے۔ غریب عوام پر ٹیکس لگانا، ان کی ضروریاتِ زندگی کی اشیا کو مہنگے سے مہنگا کیے جانا، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ تو ان کے لیے مشکل فیصلے ہیں لیکن اپنے لیے اور اپنے تمام ہم نواؤں کی مراعات اور آمدنیوں میں کمی لانا، ایسے فیصلے ہیں جو ان کے لیے مشکل نہیں، یہ ایسا قدم ہے جو دنیا میں کسی بھی عقل و ہوش رکھنے والے کو سمجھ میں نہیں آ سکے گا۔ مہنگائی کے اس بے قابو جن کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کو ’’بیوی کیا چاہتی ہے‘‘ کی اس تحریر کو حرف بہ حرف سمجھنا ہوگا۔ اگر بات سمجھ میں آ گئی تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ دل کی بے سکونی قابو میں آجائے بصورتِ دیگر جن حالات کا سامنا ہے ان حالات میں آپ صبر سے جی لیں یا کلس کلس کر خود کشی کر لیں، آپ کا اپنا انتخاب۔
کسی باد شاہ نے اپنے مصاحب سے کہا کہ یہ معلوم کرکے بتاؤ کہ ’’آخر بیوی چاہتی کیا ہے‘‘۔ اگر جواب اطمینان بخش نہ ہوا تو میں تمہیں قتل کروادوںگا۔ اس نے مہلت چاہی تو تیس دن کی مہلت عطا کردی گئی۔ وہ مصاحب نہ جانے کہاں کہاں کی ٹھوکریں کھاتا رہا۔ کوئی مولوی، کوئی مفتی، کوئی علامہ، کوئی مولانا، پیر، فقیر، سنیاسی بابا، دانشور اور حکیم و دانا نہیں چھوڑا جس سے وہ نہ ملا ہو مگر کسی سے بھی ایسا جواب نہ مل سکا جسے سن کر بادشاہ سلامت مطمئن ہو سکیں۔ دن گزرتے رہے اور پریشانی بڑھتی رہی۔ یہاں تک کہ وہ جنگل میں نکل گیا تو وہاں اس نے ایک ’’بابا‘‘ کو دیکھا۔ وہ بھی اس سوال کا جواب تو نہ دے سکا البتہ رہنمائی کرتے ہوئے کہا کہ اسی جنگل میں ایک چڑیل رہتی ہے۔ اسی کے پاس اس بات کا جواب ہے۔ وہ جنگل میں چڑیل کی تلاش میں نکلا اور وہ مل بھی گئی۔ اتنی خوفناک، ڈراؤنی اور بد شکل مخلوق اس نے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ چڑیل نے آنے کا سبب پوچھا۔ اس نے مدعا رکھا۔ چڑیل سن کر ہنسی اور کہنے لگی کہ ایک شرط پر تجھے میں یہ راز بتاؤں گی کہ تو مجھ سے شادی کر لے۔ یہ سن کر اس کا کلیجہ منہ کو آ گیا لیکن اس نے سوچا کہ جواب نہ پاکر میں بادشاہ کے ہاتھوں مارا جاؤں گا تو کیوں نہ چڑیل کا نوالہ بن جاؤں۔ چنانچہ اس نے چڑیل کی بات مان لی۔ حجرے میں گیا تو وہی چڑیل ایک نہایت حسین عورت کے روپ میں ملی۔ وہ گھبرا کر واپس نکل ہی رہا تھا کہ چڑیل نے اسے روک لیا اور کہا کہ کیونکہ تونے اس کی بات مان کر اسے خوش کیا اس لیے میں رات میں پری لیکن دن کو چڑیل ہی بنا کروں گی۔ چڑیل اس سے جو فرمائش کرتی وہ چار و نا چار اسے پورا کرتا رہتا۔ جواب میں چڑیل بھی اپنے چڑیل بنے رہنے کے وقت میں کمی کرتی رہی۔ ایک وقت ایسا آیا کہ وہ ایک مکمل حسین عورت بن گئی۔ مصاحب کو جواب مل گیا اور یہی جواب تمام عوام کے لیے ہے۔ جو جن، بھوت، دیو، فرعون، نمرود اور ہامان ان پر مسلط ہیں، ان سب کو ’’خوبصورت‘‘ انسانوں میں ڈھالنے کے لیے اگر اپنا خون بھی انہیں پیش کرنا پڑے تو کریں ورنہ پھر یہ سارے جن، بھوت غضبناک ہو کر ویسے بھی آپ کو کھا ہی جائیں گے۔