سیاسی جماعتوں میں کس کا حکم چلتا ہے

393

اس وقت دو سوال بہت اہم ہیں ایک تو یہ کہ ہماری سیاسی جماعتوں کی تنظیم میں کن کی ہدایات پر کام ہورہا ہے یعنی کس کا حکم چلتا ہے۔ پارٹی سربراہ کی بات مانی جارہی ہے یا کسی اور کی بات کو ترجیح دی جارہی ہے۔ دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں میں کتنے قسم کے لوگ ہوتے ہیں، ہارڈ لائینر،سافٹ لائینر، مڈ لائینر یعنی سخت موقف رکھنے والے یا نرم موقف رکھنے والے یا درمیانی موقف یا متوازن رویہ رکھنے والے لوگ۔ اسی دوسرے سوال سے بات کا آغاز کرتے ہیں لیکن اس سے پہلے ہمارے ساتھ گزرنے والا ایک واقعہ جس سے اس سوال کے جوابات کے کچھ اشارے مل جائیں گے۔ یہ کم و بیش پندرہ برس قبل کی بات ہوگی جب ایم کیو ایم کی دہشت نے پوری کراچی کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا۔ عید الاضحیٰ کے موقع پر دہشت گردی اپنے عروج پر ہوجاتی تھی۔ اسی میں ایک مہم چرم قربانی کے تیسرے دن ہم نے اپنے ایک کرائے دار سے گائے کی کھال الخدمت کو دینے کی بات کی انہوں نے وعدہ کرلیا کہ ہم آپ ہی کو دیں گے۔ جس وقت قربانی ہورہی تھی ایم کیو ایم کا ایک لڑکا جو گلی ہی میں رہتا تھا ان سے کھال لینے آگیا انہوں نے مجھے بلالیا۔ اس لڑکے کے بڑے بھائی کو ہم نے اپنے دور میں کے ایم سی میں جاب دلوائی تھی اور گھروں میں آنا جانا تھا۔ وہ عمر میں بہت چھوٹا تھا اور مجھے اچھی طرح جانتا بھی تھا میں نے اس سے کہا کہ دیکھو تم نے پوری گلی کی کھالیں جمع کی ہیں اب یہ ایک صاحب نے الخدمت کو دینے کہا ہے اس لیے اسے چھوڑ دو وہ نہیں مانا چلا گیا اب ان کی آنکھوں میں مروت، دلوں میں نرمی اور ذہنوں میں گنجائش تو ہوتی نہیں۔ بعد میں بیس پچیس لڑکے آگئے کچھ بائیک پر، ایک کار جس میں اسلحہ تھا اور بیش تر پیدل آئے۔

دہشت گردی میں کسی کو قتل نہیں کیا جاتا بلکہ شدید قسم کے خوف کی فضاء بنائی جاتی ہے آنے والے جتھے میں تین چار لڑکے تو وہ تھے جو مسلح تھے ریوالور ہوا میں لہراتے ہوئے بدمعاشی اسٹائل میں چلاتے ہوئے کہنا ہم بھی دیکھتے ہیں کون یہاں سے کھال لے جاتا ہے یہ اس گروپ کے ہارڈلائینر تھے اب مجمع میں سے کچھ لوگ ہم سے بات کررہے ہیں کچھ لوگ سخت لہجہ میں تو کچھ نرم انداز میں یہ اس گروپ کے سافٹ لائینرز تھے جب کچھ وقت گزرجاتا ہے اور فضاء پوری طرح خوف کی زد میں آجاتی ہے اب اسی مجمع سے کچھ سفید بالوں والے بزرگ ٹائپ کے لوگ آگے آتے ہیں یہ اس گروپ کے مڈ لائینرز ہیں وہ سمجھانے والے لہجے میں کہتے ہیں دیکھیں جاوید بھائی محلے کی بات ہے ایک کھال کا مسئلہ چھوڑیں جانے دیں میں نے کہا بھائی ایک کھال نہیں ایک اصول کا مسئلہ ہے کہ ایک فرد نے الخدمت کو کھال دینے کہا اس کو آزادی سے دینے دیں انہوں نے کہا چلیے اس سے دوبارہ پوچھ لیتے ہیں میں نے ہنستے ہوئے کہا اب تو بیچارہ ویسے ہی سہم گیا ہے خیر انہوں نے اس سے پوچھا تم کس کو کھال دو گے انہوں نے ایک لڑکا جس کے ہاتھ میں ریوالور تھی اس کی طرف اشارہ کرکے کہا اس کو دیں گے معاملہ نمٹ گیا بعد میں وہ صاحب میرے پاس آئے اور کہا کہ ہم چھے بھائی ہیں ہم آج ضد کرکے آپ کو دے بھی دیتے تو بعد میں یہ آپ کو تو کچھ نہیں کہتے کہ آپ کی پشت پر ایک تنظیم ہے لیکن بعد میں ہم میں سے کسی بھائی کو کوئی بھی نقصان پہنچا سکتے تھے۔ میں نے کہا کوئی بات نہیں آپ جو کیا ٹھیک کیا۔

تحریک انصاف میں بھی دیکھا جائے تو اسی طرح کے تین گروپ ہیں شیر افضل مروت اور علی امین گنڈاپور ہارڈ لائینر گروپ کو لیڈ کرتے ہیں اسی طرح عمر ایوب، بیرسٹرگوہر ایوب علی ظفر، شعیب شاہین اور کچھ دیگر وکلا سافٹ لائینرز ہیں اسی طرح شاہ محمود قریشی، اسد قیصر اور علی احمد مڈ لائینرز ہیں جو متوازن رویہ رکھتے ہیں۔ عمران خان تینوں گروپوں کو لے کر چلتے ہیں لیکن ہارڈ لائن رکھنے والوں کو زیادہ پسند کرتے ہیں ایک زمانے میں فواد چودھری ان کے لاڈلوں میں سے تھے۔ قیادت کو ایک پرابلم فیس کرنا پڑتا ہے کہ تحریک انصاف کے ہارڈلائینرز دوسرے گروپ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ یہ اسٹیبلشمنٹ سے ملے ہوئے لوگ ہیں اس میں زیادہ تر وکلا ہیں جو عمران خان کی قانونی جنگ کا ہراول دستہ ہیں۔ ایک زمانے میں خان صاحب کو تیقن کی حد تک شک تھا کہ ان کی پارٹی کے کچھ لوگ بالا ہی بالا یا ورے ورے اسٹیبلشمنٹ سے روبط قائم کیے ہوئے ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ ن میں جاوید لطیف، رانا ثناء اللہ، عابد شیر علی اور عطا تارڑ وغیر ہ سخت موقف رکھنے والے رہنما ہیں جبکہ ڈاکٹر مصدق ملک، خواجہ سعد رفیق، احسن اقبال اور اسحاق ڈار اور ان کے دیگر ہم خیال مسلم لیگ ن کے سافٹ اسپوکن لوگ ہیں۔ اس طرح ہر سیاسی جماعت میں کئی گروپس پائے جاتے ہیں کہیں یہ اختلافات حقیقی نوعیت کے ہوتے ہیں قیادت یہ کہہ کر بات بناتی ہے کہ جمہوری جماعتوں میں اس طرح کے اختلاف رائے تو رہتے ہیں یہی معاملات جب آگے بڑھتے ہیں تو پھر کچھ اہم لوگ پارٹی کو خیر باد کہہ دیتے ہیں جیسا کہ مسلم لیگ ن سے خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل کی علٰیحدگی اس کی تازہ مثال ہے۔ پیپلز پارٹی میں اس طرح کے ہارڈ اور سافٹ لائینر کی تقسیم تو نظر نہیں آتی لیکن مختلف رہنمائوں میں موقف کے اختلافات سامنے آتے رہتے ہیں عدلیہ بحالی کی جب تحریک چل رہی تھی اعتزاز احسن کا ایک موقع پر ایسا لگا کہ وہ پارٹی لائن سے ہٹ کر چل رہے ہیں لیکن پی پی پی کی قیادت نے وسعت قلبی سے کام لیتے ہوئے انہیں اپنے ساتھ جوڑے رکھا۔

اب ہم اس پہلے سوال پر بات کرتے ہیں کہ ہماری سیاسی جماعتوں میں پارٹی سربراہ کی ہدایات پر عمل کیا جاتا ہے یا کہیں اور کے اشاروں پر عمل کیا جاتا ہے اس حوالے سے نجم سیٹھی کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف پر پابندی کے حوالے سے شہباز شریف کے پاس فون آیا شہباز شریف نے وزیر اطلاعات عطا تارڑ کو کہا انہوں نے پریس کانفرنس کرکے یہ دھماکہ کردیا۔ شہباز سریف نے کابینہ تو دور کی بات ہے نواز شریف کو بھی نہیں بتایا، بعد میں نواز شریف نے جب شہباز سے پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ میرے پاس فون آیا تھا۔ نواز شریف نے اپنے سمدھی اسحاق ڈار کے ذریعے یہ موقف پیش کیا کہ اتحادی جماعتوں سے مشاورت کے بعد اس پر فیصلہ کیا جائے گا اسی طرح کے بیانات خواجہ آصف اور کچھ اور ن لیگی رہنمائوں کی طرف سے آئے۔ 19جولائی جمعہ کے دن شہباز شریف نے اپنی ٹیم کے ساتھ صدر آصف زرداری سے ملاقات کی ہے۔ اس ملاقات میں پی پی پی نے کہا ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں سے مشاورت کے بعد بتائیں گے، بہرحال اس ایک مثال سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ہماری سیاسی جماعتوں میں سربراہوں کی کیا حیثیت ہے اور یہ کہ پارٹی کے کسی رکن کا اپنے آپ کو ’’ان‘‘ کی نظروں میں ایک مطیع و فرماں بردار ظاہر کرنا اچھے اور روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔

عمران خان کو اپنی پارٹی کے بعض لوگوں پر شبہ تھا کہ ان کا براہ راست ایجنسیوں سے رابطہ ہے اور یہ بات کسی حد تک درست بھی تھی۔ فاروق واوڈا بھی ایک زمانے میں تحریک انصاف میں ہوا کرتے تھے آج کل وہ سیاسی نجومی کے طور پر جانے پہچانے جاتے ہیں ان کی باتیں عموماً ٹھیک نکلتی ہیں۔ مثلاً الیکشن سے ایک ہفتے پہلے ہی انہوں نے کہہ دیا تھا کہ اس دفعہ بیلٹ پیپر پر بلے کا نشان نہیں ہوگا جبکہ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ تو بعد میں آیا۔ چیف جسٹس قاضیٰ فائز عیسیٰ کو فاروق واوڈا کو بلا کر پوچھنا چاہیے تھا کہ آپ نے کیسے اتنے یقین سے ساتھ کہا کہ اس دفعہ بیلٹ پیپر پر بلے کا نشان نہیں ہوگا۔ مجھے تو لگتا ہے کہ ان کے ذریعے سے کچھ لوگوں یا اداروں تک کچھ پیغام پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مثلاً عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد انہوں نے کہا پی ٹی آئی میں ایک ہفتے کے اندر فارورڈ بلاک بن جائے گا۔ دو دن کے بعد انہوں نے خود اپنے بیان کی تردید کردی اور کہا کہ آئین میں کسی پارٹی میں شمولیت کے لیے تین دن کی مہلت دی جاتی ہے یہاں عدالت نے پندرہ دن کا کہا ہے، اسپیکر اس آئینی شق پر اعتراض کرکے ان ارکان کے داخلے کو روک سکتا ہے یعنی اسپیکر تک جو پیغام پہچانا تھا وہ پہنچ گیا۔