۱سابق وزیراعظم نواز شریف ولایت کے مقام پر تو فائز نہیں لیکن ان کی یہ بات سو فی صد درست ہے کہ ’’بجلی کا بل کوئی بھی ادا نہیں کرسکتا۔ یہ غریب لوگوں کے لیے ہی نہیں بلکہ ہر ایک کے لیے مصیبت بن چکا ہے‘‘۔ ویسے تو اس ملک اور قوم کے ساتھ ہاتھ ہوتے ہی رہتے ہیں جنہیں یہ قوم باآسانی برداشت کرتی رہتی ہے لیکن بجلی کے معاملے میں جو ہاتھ ہوا ہے سب کی برداشت اس نے چو پٹ کرکے رکھ دی ہے۔ جن حکمرانوں کی یہ کارستانی ہے عوام کی آنتیں اٹھتے بیٹھتے انہیں بددعائیں دیتی رہتی ہیں۔
اس ملک میں ہر شعبہ زندگی میں جہاں نگاہ اُٹھائیں بربادی ہی بربادی ہے۔ حکمرانوں نے ملک وقوم کی طرف صرف ایک آنکھ بند نہیں کر رکھی ہے بلکہ ان کی دونوں آنکھیں بند ہیں۔ عوام خون کے آنسو رو رہے ہیں لیکن حکمران جہازوں، ہیلی کاپٹروں اور اپنی مہنگی ترین کاروں کو فل ایکسی لیٹر دیتے ہوئے ان عشرت کدوں کی طرف اُڑ رہے ہیں جو حرام کی کمائی سے انہوں نے اندرون وبیرون ملک بنائے ہیں۔ انہیں خبر ہی نہیں بجلی کے بل عوام کے لیے ایک نہ ختم ہونے والی اذیت بن گئے ہیں۔ جس دن بجلی کے بل آتے ہیں اس دن گھروں میں کچھ بھی نارمل نہیں رہتا۔ ہر طرف اضطراب ہی اضطراب، بے چینی اور غصہ ہی غصہ ہوتا ہے۔ گھر کا ہر فرد دوسرے کو بجلی کے استعمال میں لا پروائی کا الزام دیتا ہوا نظر آتا ہے۔ جنہیں 75 برس سے اندھیرے میں رکھا گیا ہے۔ وہ روشنی کے زیادہ استعمال اور زائد بلوں پر خود سے بدظن اور ناراض ناراض دکھائی دیتے ہیں۔
پچھلے ہفتوں میں کراچی میں ایک ہزارسے زائد افراد ہیٹ اسٹروک سے جاں بحق ہو چکے ہیں۔ کراچی میں جس حساب سے گرمی پڑ رہی ہے اس سے بچنے کے لیے کوئی سیٹ بیلٹ تو باندھی نہیں جا سکتی سوائے پنکھا اور اے سی چلانے کے۔ بجلی کے بڑھتے ہوئے بلوں نے پنکھے کے چلنے کو بھی وہ صورت دے دی ہے جیسے گدھ سروں پر منڈلارہے ہوں۔ اس کا حل انورٹر پنکھوں کی صورت میں نکالا گیا ہے جو تیس واٹ پر چلتے ہیں لیکن یہ ایک پنکھا نو دس ہزار روپے کا پڑتا ہے۔ جو لوگ اپنے گھروں میں اے سی پر اتراتے پھرتے تھے وہ بادشاہ سلامت بھی بجلی کے بلوں کو بارہ سنگھوں کی طرح اٹھائے اٹھائے پھر رہے ہیں۔ انہیں سولر پینلز کا متبادل حل سجھائی دیتا ہے جس پر لا کھوں روپے خرچ ہوتے ہیں اور چھتوں کی کشادگی کا ستیاناس ہوتا ہے وہ الگ۔ بجلی محتاط طریقے سے استعمال کریں یا زائد بلوں کا متبادل اختیار کریں بجلی کے استعمال سے جھٹکے لگنے ہی لگنے اور حکمرانوں کے لیے بددعائیں اور گالیاں نکلنی ہی نکلنی ہیں۔
پاکستان کے حکمران وہ سول ہوں یا فوجی اپنی اصل میں سرمایہ دار ہیں۔ وہ سرمایہ دار اپنی ان انتھک محنتوں کے نتیجے میں بنے ہیں جو مختلف معاہدوں اور سودوں میں کک بیکس، کمیشن اور کرپشن کے باب میں انہوں نے کی ہیں۔ سرمایہ دار بننے کے لیے انہوں نے نہ صرف پامال راہیں اختیار کی ہیں بلکہ وہ ایجادیں بھی کی ہیں کہ دنیا ان پر حیران ہے۔ بھلا کسی اور ملک میں ایسا کہاں ممکن ہے کہ اربوں روپے آئی پی پیز کو اس بجلی کے بھی ادا کیے جائیں جو کبھی پیدا ہی نہیں کی گئی۔ اس ملک میں آئی پی پیز کو بجلی بنا کر فروخت کرنے کے اتنے پیسے نہیں ملتے جتنے ان کو بجلی پیدا کیے بغیرکیپیسٹی پیمنٹس کی مد میں مل جاتے ہیں۔
حکومت نے ملک بھر کے لیے بجلی مزید مہنگی کرنے کے کتنے نوٹیفکیشن جاری کردیے ہیں اور کتنے ابھی باقی ہیں، کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ بجلی کے بنیادی ٹیرف میں اضافے کے جو نوٹیفکیشن پاور ڈویژن نے ابھی تک جاری کیے ہیں ان کے مطابق گھریلوصارفین کے لیے بجلی کے بنیادی ٹیرف میں 7.12 روپے تک اضافہ کردیا گیا ہے۔ ماہانہ 200 یونٹ تک کے گھریلو صارفین کو صرف 3 ماہ کے لیے اس اضافے سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ باقی گھریلو صارفین کے لیے بجلی کا بنیادی ٹیرف بڑھا دیا گیا جس کے نتیجے میں فی یونٹ بنیادی ٹیرف 48 روپے 84 پیسے تک پہنچ گیا ہے۔ ماہانہ 201 سے 300 یونٹ تک کا ٹیرف 7.12 روپے اضافے سے 34.26 روپے ہوگیا۔ ماہانہ سات سو یونٹ سے زیادہ کا ٹیرف 6.12 روپے اضافے سے 48.84 روپے ہو گیا۔ ٹیکسوں کو ملا کر سلیب کے حساب سے فی یونٹ ٹیرف کی قیمت مزید بڑھ جائے گی جبکہ بجلی کے بلوں میں ماہانہ ایک ہزار روپے کے فکس چارجز بھی شامل کر دیے گئے ہیں۔ یہ اس سب سے بڑے قانونی ڈاکے کی تفصیل ہیں جو بجلی کے شعبے میں اس ملک پر مارا گیا جس کا آغاز محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت میں جناب آصف علی زرداری کے سر جاتا ہے۔
ایک طرف نیا ٹیرف متعارف کیا گیا ہے، دوسری طرف بجلی صارفین پر ایک ہزار تک فکسڈ چارجر کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا، جس کا اطلاق یکم جولائی 2024 سے ہوچکا ہے۔ صنعتی صارفین کے لیے ماہانہ فکسڈ چارجز کو 184 فی صد بڑھایا گیا، کمرشل صارفین کے لیے ماہانہ فکسڈ چارجز میں 150 فی صد اضافہ ہوا جو 500 روپے سے بڑھ کر 1250 روپے ہو چکا، زرعی ٹیوب ویلز صارفین کے لیے ماہانہ فکسڈ چارجز میں 100 فی صد اضافہ ہوا۔ صنعتی اور کمرشل صارفین ایسے اضافے بلا چون وچراں برداشت کر لیتے ہیں کیونکہ انہوں نے یہ سارا کچھ پروڈکٹ کی قیمت میں اضافہ کردینا ہے جو بالآخر عام صارف ہی کو ادا کرنا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف جب ریاست کو بچانے کے لیے کڑے فیصلوں کی بات کرتے ہیں تو اس کا ایک ہی مطلب ہے عوام پر نت نئے ٹیکس لگانا اور بجلی کی قیمتوں میں نان اسٹاپ اضافے کرکے الزام آئی ایم ایف کے سر رکھ دینا۔ اشرافیہ پر ان فیصلوں کی معمولی زد بھی پڑے یہ کسی کو گوارا نہیں۔ پاکستان میں اشرافیہ کو جو سہولتیں حاصل ہیں ان کا تذکرہ اب خیر سے اقوام متحدہ میں بھی ہونے لگا ہے۔ یو این ڈیویلپمنٹ پروگرام کے وفد نے پاکستان کا دورہ کرنے کے بعد واپسی پر اپنی رپورٹ میں لکھا کہ پاکستان میں اشرافیہ کی مراعات پر سالانہ 17 اعشاریہ چار ارب ڈالر بے جا خرچ ہوتے ہیں۔ بہت سے سرکاری بڑوں کی ٹرانسپورٹ، رہائش، بجلی، فون، پانی، فضائی اور ریلوے کا سفر مفت ہے اور پھر لاکھوں میں تنخواہیں بھی ہیں۔
شہباز شریف نے اپنے گزشتہ دور حکومت میں حکومتی اخراجات کنٹرول کرنے کے لیے کمیٹی تشکیل دی تھی جس نے اپنی سفارشات میں بتایا تھا کہ سالانہ ایک ٹریلین روپے یعنی ایک ہزار ارب روپے کی بچت کی جا سکتی ہے۔ ایسی رپورٹوں کی حقیقت مارک ٹوئن کے گھر کی حالت جیسی ہے کوئی آہٹ ہونے پر جہاں خود ہی بھونکنا پڑتا تھا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ایسی رپورٹوں کی عمل درآمد کے اعتبار سے کوئی حقیقت نہیں ہوتی سوائے اس کے کہ سرکار خود پر بھونکنے کا شوق پورا کرکے عوام میں سرخرو ہونے کی کوشش فرما رہی ہوتی ہے۔
جمعرات، 22 مئی 2024ء کو نیپرا کے ایک اجلاس میں پیش کیے گئے اعداد وشمار کے ذریعے جو حقائق سامنے آئے وہ بہت حیران کن تھے۔ مثال کے طور پر مالی سال 25-2024ء میں پاکستان کے عوام بجلی کی جو قیمت ادا کریں گے، اس کا 70 فی صد حصہ نجی پاور پلانٹس (آئی پی پیز) کو capacity payments (پیداواری صلاحیت کے معاوضے کی ادائیگی) پر مشتمل ہو گی۔ یہ رقم 2800 ارب روپے بنتی ہے۔ جبکہ 1300 ارب روپے واقعتا پیدا ہونے والی بجلی کی قیمت کی مد میں ادا کیے جائیں گے اور اس رقم کا ایک بہت بڑا حصہ بھی آئی پی پیز کو جائے گا۔ واضح رہے کہ یہ رقم اس 2800 ارب روپے کی رقم سے الگ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 2800 ارب روپے اس بجلی کی مد میں ادا کیے جائیں گے جو کبھی پیدا ہی نہیں کی جائے گی۔ ہم بجلی کے بلوں میں جو بجلی کی قیمت ادا کریں گے اس کا 70 فی صد کیپسٹی ادائیگی پر مشتمل ہو گا۔ یعنی اگر صرف اور صرف یہ ادائیگیاں ہی نا کرنی پڑیں تو بجلی کی قیمت 70 فی صد کم کی جا سکتی ہے۔ (جاری ہے)