تمام ادارے دائرے میں رہیں

306

پاکستان میں ہر ادارہ یہ ظاہر کررہا ہے کہ دوسرا اداراہ غلط کررہا ہے اور اسی اُدھیڑ بُن میں پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہا ہے کہ عدالتی نظام 9 مئی کے منصوبہ سازوں کو ڈھیل دے گا تو انتشار بڑھے گا اور فسطائیت بڑھے گی۔ ملکی سیکورٹی صورتحال اور قومی سلامتی سے متعلق امور پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 9 مئی کے بعد انتشاری ٹولے نے پروپیگنڈا کیا کہ فوج نے جتھوں کو گولی کیوں نہیں ماری، اس کا مطلب ہے فوج نے یہ واقعہ خود کرایا، فوجی ایس او پیز کے مطابق تنصیبات پر حملہ ہو تو پہلے وارننگ دی جاتی ہے، پھر ہوائی فائرنگ اور پھر جواب دیا جاتا ہے۔ 9 مئی کے منصوبہ سازوں اور سہولت کاروں کو ڈھیل دینے اور کیفر کردار تک نہ پہنچانے کے نتیجے میں بنوں واقعہ ہوا۔ اس پریس کانفرنس سے لگ رہا ہے کہ عدلیہ کو پیغام دیا گیا ہے کہ 9 مئی کے واقعے پر عدالت عدل نہ کرے بلکہ اس سے جو کہا جارہا ہے وہ کرے اگر یہ فیصلہ ترجمان ہی کو کرنا تھا کہ 9 مئی کے کرداروں کو کیا سزا دی جائے تو پھر یہ معاملات عدالتوں میں جانے ہی نہیں چاہیے تھے، یا یہ بات صاف صاف کہ دی جائے کہ عدلیہ کے فیصلوں کو نہیں مانتے۔ دراصل پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں جمہوریت کے نام پر جو نظام قائم ہے اس میں عوام کے لیے، عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے نہیں ہے بلکہ طاقتور کی حکومت، طاقتور کے ذریعے، طاقتور کے لیے ہے۔ امریکی صدر ابراہام لنکن زندہ ہوتا تو جمہوریت کا یہ حال دیکھ کر تائب ہوجاتا یا مرجاتا، اب اس جمہوریت میں مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ، تین ستون ہوتے ہیں چوتھا ستون صحافت کو کہا جاتا ہے لیکن جب اس نظام میں کوئی پانچواں ستون بھی در آئے اور خود کو سب سے بڑا تصور کرے تو نظام خراب ہی ہوتا ہے۔ آج کل پانچواں ستون طاقت کا سرچشمہ ہونے کے ناتے اپنا قد بھی تھوڑا نہیں بہت اونچا رکھنا چاہتا ہے تو سوچا جاسکتا ہے کہ عمارت کی چھت اور توازن کیسے قائم رہے گا۔ اس کیفیت میں عدلیہ بھی کمر کس چکی ہے کہ انصاف کو انصاف دلوائیں گے، رہی مقننہ تو اس میں سارے نہیں تو بھاری اکثریت پانچویں ستون کی مدد سے آنے والوں کی ہے۔ پھر ریاستی نظام میں توازن کہاں رہے گا۔ اب عدلیہ کی ذمے داری ہے کہ تبصروں اور تقریروں کے بجائے کوشش کرے کہ اس کے فیصلے بولیں اور فوجی ترجمان کو بھی عدلیہ کو تنبیہ یا مشورہ نہیں دینا چاہیے۔ خرابی یہی ہے کہ فوج، عدلیہ انتظامیہ سمیت کوئی اپنے دائرے میں نہیں ہے، جس کا جو کام ہے وہ کرے، ورنہ آنے والی تباہی کی لپیٹ میں سب آئیں گے۔ اس لیے ایسا وقت آنے سے قبل سب اپنے دائرے میں واپس چلے جائیں۔ البتہ فوجی ترجمان نے آپریشن عزم استحکام کے بارے میں وضاحت کرکے اچھا کیا کہ یہ فوجی آپریشن نہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف ایک مربوط مہم ہے، اس میں اتفاق رائے ہوگا اور جاری انسداد دہشت گردی مہم کو موثر قانون سازی کے ذریعے بااختیار بنایا جائے گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ 22 جون کو اپیکس کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں فیصلہ ہوا کہ دہشت گردی کے خلاف مہم کو عزم استحکام کے نام سے منظم کیا جائے گا اور قومی دھارے کے تحت اتفاق رائے پیدا کیا جائے گا، عزم استحکام کا مقصد دہشت گردوں اور جرائم پیشہ مافیا کا تعلق ختم کرنا ہے، اس اجلاس کے بعد اعلامیہ جاری ہوا اور ایک کنفیوژن پھیل گئی، بیانیہ بنادیا گیا کہ آپریشن ہورہا ہے اور لوگوں کو ان کے علاقوں سے نکالا جارہا ہے، قومی وحدت کے معاملے کو بھی سیاست کی نذر کردیا گیا، عزم استحکام کو سیاست کی بھینٹ چڑھایا جارہا ہے۔ لیکن یہ وضاحت تو وزیر اعظم شہباز شریف کو کرنی چاہیے تھی جنہوں نے واضح اعلان کیا تھا کہ عزم استحکام کے نام سے نیا فوجی آپریشن ہورہا ہے۔ اب یہ فیصلہ احمد شریف اور شہباز شریف میں سے ایک کو کرنا ہے کہ درست کیا ہے؟ اعلامیہ یا یہ وضاحت۔ یہ درست ہے کہ اس آپریشن پر سیاست کی جارہی ہے لیکن مسئلہ بھی یہی ہے کہ سیاست کے سوا ہر چیز پر سیاست کی جارہی ہے، انہوں نے آپریشن کی تفصیل بتائی اعدادو شمار بتائے، یہ سب پہلے بھی بتائے گئے تھے دہشت گرد اسی طرح موجود ہیں، لیکن اس دوران اچانک دینی مدارس درمیان میں آگئے، ان کا کہنا تھا کہ ملک بھر میں 32 ہزار سے زاید مدارس ہیں جن میں سے 16 ہزار رجسٹرڈ ہیں اور 50 فی صد رجسٹرڈ نہیں، باقی مدارس کہاں ہیں اور کون انہیں چلا رہا ہے، کیا یہ فوج کو کرنا ہے؟ جب یہ نہیں پتا کہ کہاں ہیں اور کون چلارہا ہے تو فکر کس بات کی یہ کام حکومت کا ہے وہ کرے دینی مدارس کے وفاق ہیں ان سے رابطہ کرے۔ اس دہشت گردی سے دینی مدارس کو ملانے کی ضرورت نہیں یہ دینی مدارس بھی خلائی مخلوق نہیں جو کسی کے علم میں نہ ہوں برسر زمین گلیوں محلوں میں ہوتے ہیں۔ یہ فیصلہ بھی کرلیں کہ نشانہ کون ہے، 9 مئی والے یا دینی مدارس، ترجمان نے بہت سے ایسے معاملات کا ذکر کیا ہے جو براہ راست حکومت کی ذمے داری ہیں لیکن اب تو انہوں نے کہہ دیا کہ ہم نے باقاعدہ تواتر سے پریس کانفرنسوں کا فیصلہ کیا ہے، فوج کے سیاست میں آنے کا نتیجہ پریس کانفرنسوں تک پہنچ گیا ہے، اس کا نتیجہ بھی ادارے کے لیے اچھا نہیں ہوگا پھر اسی قسم کی باتیں ہوں گی جن کی وضاحت کرنی پڑتی ہے جیسے دینی مدارس کی بات کردی گئی، سیاست دان تو بات کرکے مکر بھی جاتے ہیں لیکن فوج ایسا کرے گی تو اس کی ساکھ کو سوشل میڈیا سے زیادہ نقصان اپنے ہاتھوں ہوگا، گویا اب صورت یہ ہے کہ سیاسی رہنما پریس کانفرنس کررہے ہیں، عدلیہ بیان بازی اور انصاف کو انصاف دو کے نعرے لگا رہی ہے اور فوج بھی پریس کانفرنس کررہی ہے، کوئی ہے جو ان اداروں کو ان کے دائروں میں واپس لائے گا؟؟ اگر ان سب اداروں نے ہوش کے ناخن نہیں لیے تو کسی ادارے کی ساکھ نہیں بچے گی، شکوہ تو سب کو ہے کہ ہماری ساکھ خراب کی جارہی ہے لیکن اپنا دائرہ چھوڑ کر دوسرے دائرے میں جائیں گے تو یہی ہوگا، اس کے لیے غیر ملکی سازش، نامعلوم دشمن، عدلیہ پر دباؤ وغیرہ کی باتیں کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ سب اپنے ہاتھوں اپنا نقصان کررہے ہیں۔ یہ بات تو اب ڈھکی چھپی نہیں کہ بھٹو، نواز شریف اور خاندان، الطاف حسین، اور عمران خان کس نرسری کے گملے کی پیداوار ہیں قابو سے باہر ہوجائیں تو ان سے نمٹنے میں ناکامی پر جھنجھلاہٹ کیسی۔ ایسے بت تراشے ہی کیوں جاتے ہیں جو بڑے ہوکر خود کو خدا سمجھنے لگتے ہیں ،ملک کی صورتحال دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہاں کوئی مسئلہ نہیں ہے مہنگائی، بیروزگاری بد امنی، آئی ایم ایف، پیٹرول، بجلی ، آئی پی پیز کچھ نہیں ، بس مسئلہ ہے تو فوج ہے ، عدلیہ ہے،پی ٹی آئی ہے ،شریف خاندان ہے، سب ایک دوسرے سے الجھے ہوئے ہیں ، پھر ملک کا اللہ ہی حافظ۔