کراچی (رپورٹ \محمد علی فاروق) ڈونلڈ ٹرمپ پر حملے میں امریکی اسٹیبلشمنٹ ملوث ہو سکتی ہے‘ حملہ انفرادی حیثیت میں نہیں، بڑی منصوبہ بندی سے کیا گیا‘ حملہ آور کو پورا موقع پر فراہم کیا گیا کہ وہ فائرنگ کرے‘ ناکامی پر سیکورٹی اہلکاروں نے تھامس میتھیو کروکس کو فائرنگ کرکے ہلاک کردیا‘ سیکورٹی اہلکاروں نے غفلت کا مظاہرہ کیا‘ ٹرمپ اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر نہیں ہیں‘ عالمی معاملات سے دستبردار ہوسکتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر لیاقت بلوچ‘ سابق سفیر، سینئر تجزیہ کار اور بین الاقوامی امور کے ماہر عبدالباسبط‘ سابق سفیر، سینئر تجزیہ کار اور بین الاقوامی امور کے ماہر ڈاکٹر جمیل احمد خان‘ سنیئر تجزیہ کار، دفاعی امور کے ماہر سابق کرنل اسد محمود اور بین الاقوامی امور کی ماہر پروفیسر ڈاکٹر ہما بقائی نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا ڈونلڈ ٹرمپ پر حملے میں امریکی اسٹیبلشمنٹ ملوث ہے؟‘‘ لیاقت بلوچ نے کہا کہ امریکی صدارتی انتخاب امریکی سیاست اور امریکی قد کاٹھ کو کمزور اور زوال کا شکار کر رہا ہے‘ ڈونلڈ ٹرمپ جب صدر منتخب ہوئے تو ان کی صدارتی مدت میں بھی یہ خدشات ابھرتے رہے کہ ٹرمپ امریکی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک پیج پر نہیں ہیں‘ ٹرمپ صدارتی انتخاب ہار گئے لیکن جوبائیڈن کا کمزور صدارتی دور ٹرمپ کے لیے نئی سیاسی زندگی کا باعث بن گیا‘ یہ امر بھی مخفی نہیں کہ ٹرمپ اور امریکی اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات نارمل نہیں‘ گولی تو ٹرمپ کو لگی لیکن خاتمہ جوبائیڈن کا ہوگیا‘ صدارتی انتخابی ریلی میں فائرنگ باہر سے نہیں ہوئی، یہ امریکا کے اپنے گھر کا فساد ہے‘ بہرحال یہ تحقیقات تو امریکا نے ہی کر نی ہیں، جو نتائج آئیں گے اسی وقت منظر واضح ہوگا‘ ممکن ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ انتخاب جیت جائیں تو قاتلانہ حملہ کی خود ہی تحقیقات کرائیں‘ امریکی صدر ماضی میں بھی “اندرونی گولیوں” کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ عبدالباسبط نے کہا کہ یہ بالکل ممکن ہے کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ عالمی معاملات سے دستبردار ہو سکتے ہیں خاص طور پر تنازعات والے علاقوں سے جو کہ اسٹیبلشمنٹ اور امریکی ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کے مفادات کے خلاف ہے۔ ڈاکٹر جمیل احمد خان نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاست کا محور تفریق ہے‘ وہ اپنے گزشتہ دور میں بھی وائٹ سپرامیسی (سفید فام نسل کی برتری کی سوچ) یا رائٹ ونگ کی سیاست کرتے رہے ہیں کیونکہ امریکا میں مقیم وائٹ سپرامیسی اور رائٹ ونگ کے پیروکار وں کی تعداد ہسپانیوں ودیگر ممالک کے افراد سے کہیں زیادہ ہے‘ اس بنا پر وہ گزشتہ انتخابات میں بھی جیت گئے تھے ، انتخابات جیتنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے جس طور طریقے کے ساتھ حکومت کو چلایا اس میں کلیدی بات یہ تھی کہ ان کے خیالات و طریقہ کار بہت سے معاملات میں اداروں کے فیصلوں کے برعکس تھے جس کی بنا پر ادارے یا اسٹیبلشمنٹ بشمول پنٹا گون، سی آئی اے اور دیگر اہم حساس ادارے ڈونلڈ ٹرمپ سے زیادہ خوش نہ تھے‘ اس بار بھی ان کے جیتنے کے 99 فیصد امکانات ہیں ان کی روش اس بار بھی گزشتہ دور سے کچھ زیادہ مختلف نہ ہوگی‘ ٹرمپ پر حملے میں اسٹیبلشمنٹ کے ملوث ہونے کے ابھی تک ثبوت سامنے نہیں آئے ہیں گو کہ سوشل میڈیا پر کئی چِہ می گوئِیاں ہو رہی ہیں ہاں سیکورٹی اداروں کی کوتاہی بالکل صاف نظر آرہی ہے کہ وہ چھت جو بالکل اسٹیج کے آمنے سامنے ہے اس پر سیکورٹی فورس یا حساس اداروں کے اہلکاروں کی تعیناتی نہیں کی گئی تھی‘ سوشل میڈیا و دیگر ذرائع کے مطابق مجمع سے کچھ لوگوں نے حملہ آور کے بارے میں جلسہ گاہ میں سیکورٹی پر تعینات اہلکاروں کو بتایا کہ ایک شخص رائفل لے کر چھت پر کرالنگ کرتا ہوا نظر آیا ہے لیکن سیکورٹی اہلکاروں نے اس کے خلاف بر وقت کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں کی نتیجتاً حملہ آور تھامس میتھیو کروکس حملہ کرنے میں کامیاب ہوگیا لیکن خوش قسمتی سے امریکا کے متوقع صدر ڈونلڈ ٹرمپ بال بال بچ گئے‘ اگر انہوں نے اس موقع پر اپنی گردن کو لمحے سے بھی کم وقت میں جھٹکا نہ دیا ہوتا تو وہ آج اس دنیا میں نہ ہوتے لیکن بظاہر تفتیش میں کہیں ایسے ثبوت سامنے نہیں آئے کہ اس حملے میں امریکا کی اسٹیبلشمنٹ ڈائریکٹ ملوث ہے۔ اسد محمود نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ پر حملے میں اسٹیبلشمنٹ کے ملوث ہونے کو اس تناظر میں دیکھیں تو اسٹیبلشمنٹ کا ایک حصہ ڈیپ اسٹیٹ کا ہے یعنی ریاست کے اندر ریاست کا ہونا ہے ، حملے کے وقت امریکی سیکرٹ سروس کے اہلکار موجود تھے‘ حملہ جس طرح سے ہوا کچھ شواہد بھی ایسے ملے ہیں کہ حملہ آور نے ایسی جگہ پر پوزیشن لی ہوئی تھی جہاں حملہ آور ان کی نظروں میں تھا جب اس نے حملہ کیا تو فوراً ہی اس کو بھی ختم کر دیا گیا ایسے بہت سے عوامل ہیں جو بہت سے سوالوں کو جنم دیتے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حملہ انفرادی حیثیت میں نہیں کیا گیا بلکہ اس کے لیے ایک بہت بڑی منصوبہ بندی کی گئی اس معاملے میں ڈیپ اسٹیٹ کے کرادار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ گزشتہ اقتدار میں جس طرح سے فیصلے کر تے تھے‘ 4 سال کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے بہت سی مشکلات کا سامنا بھی کیا ہے‘ ایک بات ضرور ذہین میں رکھنا چاہیے کہ اسٹیٹ کے اندر اسٹیٹ کا کردار ہر ملک میں ہی ہوتا ہے‘ امریکا میں جو اسٹیٹ کے اندر اسٹیٹ ہے ان سے کوئی بعید نہیں کہ وہ کچھ بھی کر سکتی ہے‘ اگر ڈونلڈ ٹرمپ صدر بن جاتے ہیں اور ڈیپ اسٹیٹ کی پالیسی کو فالو نہیں کرتے تو انہیں ڈیپ اسٹیٹ سے خطر ہ رہے گا۔ ڈاکٹر ہما بقائی نے کہا کہ سوال یہ نہیں ہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ اس حملے میں ملوث تھی یا نہیں بلکہ اس سے بڑا سوال یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اس حملے کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کریں گے جو شواہد سامنے آرہے ہیں اس سے اس بات کی عکاسی ضرور ہو رہی ہے کہ رویے اور کچھ پکوشن کمزور پڑیں تھیں اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جو بائیڈ ن اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے ہیں‘ ٹرمپ ازم کا ختم نہ ہونا اوران کا دو بارہ منظر عام پر آنے سے یہ بات یقینی ہے کہ وہ امریکا کے47 ویں صدر بنے جا رہے ہیں یہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کے لیے کوئی بہت خوش آئین بات نہیں ہے‘ ٹرمپ بہت شاندار کھیل رہے ہیں انہوں نے اپنا نائب صدر جسے چنا ہے وہ جے ڈی وینس ہیں جو ٹرمپ کے لیے فائدہ مند ثابت ہو ں گے ،ہلیری کی جیت کا بھی بہت شور تھا اور پھر ٹرمپ جیت گئے تھے ایک بار پھر جو بائیڈ ن کو ریس سے نکال کر کملادیوی ہیرس کی بات ہو رہی ہے مگر اس سیٹ کے لیے سب سے پاپولر نمائندہ ہلیری کو ہی سمجھا جا رہا ہے‘ میں سمجھتی ہوں کہ کیا امریکی سیاست میں بھی ایسے عوامل آگئے ہیں جن کے بارے میں آج سے قبل ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے یہ بات بالکل واضح ہے کہ ان عوامل میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ دراصل کیا امریکی اسٹیبلشمنٹ ایک نمائندے کو (الیمنٹ ) ختم کرنے میں کردار ادا کر سکتی ہے۔